اس کے والدین کو جب پتہ چلا تو انہوں نے اسے میرے ساتھ ملنے سے روک دیا۔ آخر ایک دن موقع پا کر میں اسے ملا اور اسے باہر گھومنے پھرنے کے لیے بلایا تو وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے تبلیغ کرتے ہیں اور یہ بات میرے والدین کو پسند نہیں۔ اس لیے وہ مجھے تمہارے ساتھ ملنے سے منع کرتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تبلیغ نہیں کروں گا مگر آئو باہر تو چلیں۔ مرزا طاہر نے فوراً بات کاٹ دی اور کہا بیٹھ جائو بیٹھ جائو۔ میں آپ کی بات ہی نہیں سننا چاہتا۔ آپ نے یہ کیوں کہا کہ میں تبلیغ نہیں کروں گا۔ اس نے وضاحت کرنا چاہی کہ میں نے اسے باہر بلانے اور اپنا رابطہ قائم رکھنے کے لیے کہا تاکہ وہ ساتھ چلے تو سہی۔ بعد میں تبلیغ تو ضرور کرنا تھی۔ مرزا طاہر جلال میں آگئے اور زور دے کر کہا تم بیٹھ جائو۔ میں تمہاری بات ہی نہیں سننا چاہتا۔ تم نے یہ کیوں کہا کہ تبلیغ نہیں کروں گا۔ اس طرح بھری مجلس میں اس کی بے عزتی کردی اور ساتھ عوام کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ تبلیغ نہیں کریں گے تو مجھے آپ سے ملنے کی کوئی خوشی نہیں اور ایک قادیانی ہو کر تبلیغ نہ کرے یہ مجھے منظور نہیں۔
مرزا طاہر احمد نے قادیانیوں میں تبلیغ کا جوش بھر دیا۔ ہر ضلع، تحصیل، حلقہ، محلہ کی جماعت کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے معیار کے لحاظ سے تبلیغی مجالس منعقد کرے اور پھر زیر تبلیغ مسلمانوں کو ان مجالس کے بعد مرکز میں لے کر آئیں۔ بس پھر کیا تھا پوری جماعت اس میں مصروف ہوگئی۔ پورے جوش کے ساتھ ہر قادیانی تبلیغ کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر محلے میں ’’چائے پانی‘‘ کی مجالس شروع ہوگئیں جس میں غیر قادیانی حضرات کو بلایا جاتا اور ان کو تبلیغ کی جاتی۔ جس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا کہ فلاں دن فلاں جگہ مجلس سوال و جواب منعقد ہوگی جس میں اتنے ’’غیراز جماعت دوست‘‘ حاضر ہوتے۔ یہ ریکارڈ ربوہ میں پہنچایا جاتا۔
مجالس کا یہ سلسلہ محلے سے لے کر تحصیل و ضلع لیول تک ہوتا اور پھر پوری تحصیل یا ضلع کا ایک اجتماعی قافلہ بذریعہ بس ربوہ جاتا جس میں اکثریت ’’غیر از جماعت دوستوں‘‘ کی ہوتی۔ وہاں ’’دارالضیافت‘‘ میں خوب خاطر مدارات کی جاتی۔ تین چار گھنٹے تک مختلف مربیوں کے ذریعے تقاریر اور سوال و جواب کروائے جاتے اور آخر پر بیعتوں کے لیے کہا جاتا۔ مشاہدہ یہ تھا کہ ۱۰۰ مسلمان حضرات کے قافلہ میں سے کبھی ایک اور کبھی خالی (بغیر پھل کے) اس طرح بہت کم ’’پھل‘‘ ملتا۔ اس طرح جماعت کا بہت زیادہ پیسہ خرچ ہو جاتا مگر پھل انتہائی مایوس کن۔
مرزا طاہر احمد نے جماعت میں تبلیغ کا جوش بھر دیا۔ بیعتوں کے سلسلہ میں کوئی کامیابی نہ ہوئی مگر اس سے جماعت کا مورال بڑھ گیا اور وہ اتنی ’’چارج‘‘ ہوگئی کہ ہر قادیانی دنیا پر حکومت