دیگر تقاضے پورے کرنے کے لیے قادیانیوں کو مسلمانوں کی طرح کے ’’شعائر اسلام‘‘ استعمال کرنے سے روکا جائے۔ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے اور مسجد کی طرز پر بنانے، اذان دینے، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے، مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھیوں کو ’’صحابی‘‘ کہنے مرزا صاحب کی بیوی کے لیے ’’ام المومنین‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے سے روکا جائے۔
۱۹۸۳ء میں جب یہ تحریک زور پکڑ رہی تھی تو جلسہ سالانہ ربوہ (دسمبر ۱۹۸۳ئ) کا موضوع یہی تحریک رہا۔ مرزا طاہر احمد جنہوں نے ابھی ڈیڑھ سال قبل اقتدار سنبھالا تھا۔ اس نے قادیانیوں کا مورال بڑھانے کے لیے اپنی ایک نظم جلسہ میں سنوائی۔ اس کا پہلا شعر یہ تھا:
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو
آفت ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رخ
پلٹ جائے گا رت بدل جائے گی
وقت نے کیا ثابت کیا؟ کیا آفت و ظلمت و جور ٹل گئی؟ کیا ’’آہ مومن‘‘ سے طوفان کارخ پلٹا؟ یا آہ تو رہی ’’مومن‘‘ کی تلاش جاری ہے؟ … کیا یہ پیشگوئی پوری ہوئی؟ نہیں قطعاً نہیں۔
۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۴ء دس سال کا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپ سے آنے والی ٹھنڈی ہوا سے قادیانیوں کے زخم مندمل ہونے لگے، دوسری طرف مرزا طاہر احمد نے جون ۱۹۸۲ء میں اقتدار سنبھالا تو جماعت میںزبردست جوش بھر دیا۔ تبلیغ یا ’’دعوت الی اللہ‘‘ کا ہر ایک (قادیانی) کو دیوانہ بنا دیا۔ ہر قادیانی کو ذاتی اور اجتماعی طور پر تحریر و تقریر کے ذریعہ پابند کیا گیا کہ وہ سال میں ایک ’’پھل‘‘ ضرور جماعت کی جھولی میں ڈالے۔ مراد یہ ہے کہ سال میں ایک نیا شخص قادیانی بنائے۔ یہ غالباً ۱۹۸۲ء کا ہی واقعہ ہے۔ میں ربوہ میں قادیانی عبادت گاہ ’’المبارک‘‘ میں گیا۔ مغرب کی نماز مرزا طاہر احمد قادیانی نے خود پڑھائی (مرزا طاہر احمد اس وقت نئے نئے ’’خلیفہ وقت‘‘ تھے) نماز کے بعد عوام سے تعارف اور سوال و جواب کے لیے بیٹھ گئے۔ اس کو ’’مجلس عرفان‘‘ کہتے تھے۔ مرزا صاحب لوگوں سے حال و احوال پوچھ رہے تھے۔ لوگوں پر زور دے رہے تھے کہ تبلیغ کریں۔ ہر قادیانی تبلیغ کرے اور جو نہیں کرے گا اس سے ملنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ اتنی دیر میں کراچی سے تعلق رکھنے والا لڑکا اٹھا اور اپنا تبلیغی تجربہ بتانے لگا کہ میرا ایک کلاس فیلو ہے میں اسے تبلیغ کرتا ہوں۔ ساتھ اس نے کچھ تبلیغی باتیں بھی بتائیں۔ پھر کہنے لگا کہ