’’سفید داغ‘‘ ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا۔ قادیانیوں کو قومی اسمبلی کے ذریعہ آئین میں ترمیم کر کے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، پہلے قادیانیوں کو اپنا پورا موقف بیان کرنے کا موقع دیا گیا۔ تب فیصلہ کیا گیا۔
۱۹۷۴ء کے بعد قادیانیوں نے یورپ کا رخ کیا۔ وسیع پیمانے پر جعلی دستاویزات پر وہ یورپ میں داخل ہوتے گئے اور وہاں پر ’’سیاسی پناہ‘‘ حاصل کرنے لگے۔ اس میں گائیڈ اور معاونت کرنے والے ’’کاروباری مسلمان‘‘ ہی تھے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے ’’تھوک کے حساب‘‘ سے مسلمانوں کو بھی ’’بہتی گنگا‘‘ میں ہاتھ دھونے کے لیے بھیجنا شروع کردیا۔ سلسلہ ایسا چل نکلا کہ قادیانی اور غیر قادیانی جوق در جوق یورپ میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ یہ تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں پہنچ گئی۔ قادیانیوں نے اپنی مخالفت میں چلنے والی تحریک کو کیش کروانا شروع کر دیا۔ مخالفانہ تقاریر، تحریرات، فوٹو اور دیگر دستاویزات کا ریکارڈ اکٹھا کرکے باہر پناہ حاصل کرنا شروع کردی۔ اس سے جہاں قادیانیوں کو ایک ’’راہ فرار‘‘ مل گئی وہاں انہیں یورپ سے ڈالر اور پائونڈ پہنچنا شروع ہوگئے۔
اب بیرون ملک پناہ کا کیس یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ قادیانی خود ہی دے دلا کر تھانے میں جعلی مقدمہ اپنے خلاف درج کرواتے ہیں اور پھر ایف آئی آر کی نقل لے کر باہر جا کر سیٹ ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کثرت کے ساتھ قادیانی جعلی دستاویزات کے ساتھ کارروائی ڈال رہے ہیں کہ ان میں سے کم از کم ۹۸ فیصد کیس جعلی ہوتے ہیں۔ دو فیصد احتیاطاً علیحدہ کر رہا ہوں۔۱۹۷۴ء سے چلنے والی جعلی دستاویزات و کیسوں کی ’’آندھی‘‘ نے یورپ میں پاکستان کو خوب بدنام کیا۔ یورپ میں اب پاکستانیوں کی ساکھ خراب ہوچکی ہے۔ ساکھ خراب کرنے میں اہم رول قادیانیوں نے پناہ کے سلسلہ میں ادا کیا۔ اب یورپ والوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور اب وہ قادیانیوں پر اعتبار نہیں کرتے اور دھڑا دھڑ کیس مسترد کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو قادیانی ظاہر کرنے والوں کے کیس مسترد کرکے بغیر نوٹس کے ملک بدر کر دیتے ہیں۔ ۱۹۷۴ء کے بعد قادیانیوں کو یورپ سے آنے والی ’’ٹھنڈی ہوا‘‘ سے سکون ملا۔ مگر دس سال بعد ۸۴۔۱۹۸۳ء میں ایک بار پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک چل پڑی۔ سیالکوٹ کے محمد اسلم قریشی کے اغوا سے چلنے والی احتجاجی تحریک ختم نبوت میں تبدیل ہوگئی۔ اب مسلمانوں نے نئے مطالبات پیش کر دئیے کہ قادیانی کیونکہ غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جا چکے ہیں لہٰذا آئین میں کی جانے والی تبدیلی کے دیگر