نام رکھا گیا جو ابھی تک قائم ہے۔ یہ بھی قادیانی تھے۔ ائیر فورس میں ظفر چوہدری ائیر مارشل کے عہدے پر پہنچے۔ لہٰذا ان کے ناموں سے قادیانیوں نے اپنا خوب رعب جمایا۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کھل کر سپورٹ کیا تو وہ کامیاب ہوگئی۔ جس سے قادیانیوں نے ’’پانچویں گھی میں‘‘ سمجھ لیں۔۱۹۷۴ء تک ایک نئی نسل تیار ہوچکی تھی یعنی جو ۱۹۵۳ء کے بعد پیدا ہوئی وہ ۱۹۷۴ء تک مکمل جوان ہوچکی تھی۔ لہٰذا اسے ۱۹۵۳ء کے حالات یا ’’مار‘‘ یاد نہ تھی اور جنہوں نے ہوش و حواس سے ۱۹۵۳ء کے حالات دیکھے تھے وہ بڑھاپے کی حد کو چھو رہے تھے۔ تو گویا جوش والی نسل پرانے سبق سے بے بہرہ تھی۔
مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کے گروپ نے شمالی علاقہ جات کا سات روزہ دورہ کیا۔ سفر کے دوران بذریعہ ریل وہ چناب نگر (ربوہ) ریلوے سٹیشن پر سے گزرے۔ شاید انہوں نے وہاں نعرہ بازی کی جس سے قادیانیوں کی توجہ اس طرف ہوئی اور انہوں نے ان کے متعلق پلاننگ شروع کر دی۔ اب اسی پلاننگ میں ساری کی ساری نوجوان نسل شامل تھی جو ۱۹۵۳ء کے سبق سے بے بہرہ تھی۔ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو جب نشتر کالج کے طلباء واپس ملتان آ رہے تھے تو سرگودھا ریلوے سٹیشن پر ان کی قادیانی نوجوان (خدام) نگرانی کرنے لگے اور ربوہ پہنچ کر ان کی ٹھکائی کے لیے تیار ہونے لگے۔ جب گاڑی ربوہ ریلوے سٹیشن پر رکی تو باقاعدہ پلاننگ سے گاڑی روک کر (سٹیشن ماسٹر قادیانی تھا) نشتر کالج کے طلباء کی خوب پٹائی کی۔ سٹیشن کے قریب علاقہ منڈی کے جوان پہلے ہی اپنے علاقے میں ڈانگ مار گروہ کی حیثیت سے ایک رعب رکھتے تھے۔ انہیں اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ قادیانیوں نے کالج کے طلباء کو خوب مارا پیٹا اور انہیں لہولہان کرکے اس پیغام کے ساتھ رخصت کیا کہ کرلو جو کرنا ہے۔ دیکھ لیتے ہیں تم کیا کرتے ہو۔ دوسرے لفظوں میں کہ ’’اب کے مار‘‘۔ اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے فوراً بعد پورے ملک میں آگ بھڑک اٹھی۔ سارا ملک ہی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ ۱۹۵۳ء میں تیار ہونے والا ’’پلیٹ فارم‘‘ صاف کرکے دوبارہ استعمال کے قابل ہوگیا۔ ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو یہ واقعہ ہوا۔ تو ۳۰ مئی کو مختلف شہروں میں مکمل ہڑتال ہوگئی۔ ۲ جون کو جہلم میں ہڑتال ہوئی۔
اس تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا جو حقیقت میں ناقابل تلافی ہے۔ اس کی تلافی کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ قادیانیوں کی ساکھ، عزت، رعب اور انا خاک میں مل گئی۔ ذلت و رسوائی کا وہ داغ لگا کہ سفید چادر نے داغ کے رنگ کو اپنا لیا۔ یہاں تک کہ