پڑے گی‘‘ دوسرے لفظوں میں قادیانی کپڑے جھاڑ کرایک بار پھر پہلوان کو کہہ رہے تھے۔ ’’اب کے مار‘‘۔
جس طرح اس بنیے کو بھی یہ گمان تھا اور وہ اس موقف میں درست بھی تھا کہ اسے پہلوان نے صرف مارا پیٹا ہے ختم تو نہیں کر دیا۔ یعنی جان سے تو نہیں مار دیا۔ مگر اسے مار سے ہونے والی ذلت و رسوائی نظر نہ آئی۔ اسے اپنا تمام رعب اور عزت خاک میں ملتی نظر نہ آئی۔ اسے آئندہ کے لیے سر نہ اٹھا سکنے کی حالت نظر نہ آئی۔ بس اسے صرف یہ خوشی تھی کہ پہلوان نے اسے جان سے تو مار نہیں دیا لہٰذا قادیانیوں نے بھی یہ علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے پورا زور لگا کے دیکھ لیا۔ مولانا مودودی، مفتی محمود اور عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے سرکردہ علماء نے زور لگا کے دیکھ لیا مگر جماعت کو ختم نہ کرسکے۔ مگر وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ ان کی عزت اور رعب خاک میں مل گیا ہے۔ ذلت و رسوائی سے منہ پر صرف سفید آنکھیں ہی نمایاں نظر آ رہی ہیں۔ انہیں آئندہ کے لیے اپنے معاشرے میں سر نہ اٹھا سکنے کی حالت نظر نہ آئی۔ انہیں ہزاروں قادیانیوں کا یتیم، بیوہ، بے روزگار، مہاجر اور ذلیل و رسوا ہونا نظر نہ آیا۔ وہ سب کچھ گنوا کر بھی ’’بے مزہ‘‘ نہ ہوئے اور ایک بار پھر مسلمانوں کو للکارنے لگے کہ ’’اب کے مار‘‘۔
۱۹۵۳ء کے بعد کچھ عرصہ تک قادیانی دبے رہے۔ ایوب خان کے دور میں قادیانیوں کے پھر پر پرزے نکلنے لگے۔ سرظفر اللہ خان وزارت خارجہ سے فارغ ہو کر عالمی عدالت میں بطور جج چلے گئے۔ مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد۔ مرزا بشیر کے بھائی) وزارت خزانہ میں سیکرٹری کے عہدے پر پہنچ گئے جن سے قادیانیوں کو خاصا حوصلہ ملنا شروع ہوگیا۔ قادیانی ایک بار پھر بھول گئے کہ سیکرٹری کے اوپر وزیر، وزیر اعظم، صدر کے عہدے بھی ہوتے ہیں اور ان پر کوئی قادیانی نہ تھا پھر دوسری وزارتوں کے یہی عہدے دار جن کی تعداد درجنوں میں ہے وہ سب مسلمان تھے۔ اگر ایک افسر کے آنے سے آپ کی پوزیشن بن رہی ہے تو جس دھڑے میں باقی سب آفیسرز ہیں ان کی پوزیشن کیوں نہیں بنتی؟ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں جنرل اختر حسین ملک اور ان کے بھائی بریگیڈئر (بعد میں جنرل) عبد العلی ملک کے نام سامنے آئے۔ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے حوالے سے جنرل اختر حسین ملک (ہلال جرأت) کا نام چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی میں مشہور ہوا۔ یہ دونوں بھائی قادیانی تھے۔
قادیانیوں نے ان کو خوب کیش کروایا۔ ۱۹۷۱ء میں میجر جنرل افتخار جنجوعہ چھمب جوڑیاں میں آپریشن کے دوران فوت ہوگئے تو چھمب فتح ہوگیا۔ بعد میں ان کے نام سے افتخار آباد