۔ یہاں تک کہ سر ظفر اللہ کی تقریر کے دوران عوام کی طرف سے ردعمل اتنا زیادہ ہوگیا کہ تمام جلسہ متاثر ہوگیا اور سر ظفر اللہ اپنی تقریر مختصر کرکے انتظامیہ کی زیر نگرانی وہاں سے جان بچا کر نکلے۔ قادیانیوں کی طرف سے اپنی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے حالات یکسر بدل گئے۔ قادیانی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہاتھ ’’ہولہ‘‘ رکھنے کی بجائے ڈٹ گئے۔ پھر قادیانیوں کے لیے ایسی آگ بھڑک اٹھی کہ جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چل پڑی۔ قادیانیوں کے خلاف جلوس نکالے جانے لگے۔ جلسوں میں، تقاریر میں قادیانیوں کے خلاف نفرت اور مسلمانوں میں غیرت ایمانی ابھاری جاتی۔ جگہ جگہ تصادم کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ قادیانیوں کو جانی، مالی نقصان پہنچنے لگا۔ ملک کے طول و عرض میں قادیانیوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ گھر جلے، کاروبار تباہ ہوئے۔ قادیانیوں کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کی تعداد کم ہونے لگی۔ لوگ جماعت کو چھوڑ کر پناہ ڈھونڈنے لگے۔ قادیانی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ پوری پوری جماعتیں ختم ہوگئیں۔ بہت سی قادیانیوں کی عبادت گاہیں مسلمانوں کو مل گئیں۔ جہلم میں جادہ، چک جمال، کوٹ بھیرہ، کوٹلا فقیر، کریم پورہ، دارا پور میں تمام کے تمام قادیانی مسلمان ہوگئے۔ جہلم کی بڑی جماعتوں محمود آباد، جہلم شہر، کالا گوجراں اور پنڈ دادن خان کی تعداد نمایاں طور پر کم ہوگئی۔ قادیانیوں کو اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان بیدار ہوگئے۔ مسلمانوں کو علماء نے یہ باور کروایا کہ قادیانی نہ صرف مسلمان نہیں بلکہ گستاخ رسول بھی ہیں۔ اس سے عام مسلمانوں اور قادیانیوں میں بہت دوری پڑگئی۔ پہلے قادیانی اپنے اپنے علاقوں میں خاصے با رعب تھے۔ ’’اپنا وزیر خارجہ‘‘ اور ’’اپنا جرنیل‘‘ اس طرح پیش کرتے کہ جیسے بڑے بھائی ہوں اس سے وہ رعب ڈال لیتے تھے مگر جب تحریک چلی تو سب کو راہ فرار نہ ملتی تھی اور جائے پناہ کے لیے مسلمانوں میں اپنے دوست تلاش کیے جانے لگے۔ اس سے قادیانی ایسے خوف کا شکار ہوئے کہ نوکریوں، میلوں، ٹھیلوں میں، شاپنگ میں، سکولوں، کالجوں میں اور سفر میں خاصے محتاط ہوگئے۔ کسی کو قادیانی بتاتے ڈرتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ اس طرح قادیانیوں کو اتنی ’’مار‘‘ پڑی کہ آج بھی ان کو اچھی طرح یاد ہے۔
دوسری طرف قادیانیوں کے سرکردہ رہنمائوں نے جماعت کا مورال بڑھانے کے لیے جماعت کے افراد کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ دیکھ لو دشمن نے کتنا زور لگایا مگر جماعت کو ختم نہ کرسکا اور یوں دشمن ناکام لوٹ گیا۔ آئندہ بھی جو جماعت کو ختم کرنے کے لیے اٹھے گا اسے ’’منہ کی کھانی