اسے چھوڑا تو بنیا بڑی مشکل سے کھڑا ہوا مگر پھر للکار دی کہ ’’اب کے مار‘‘۔
اس طرح یہ قول بطور محاورہ مشہور ہوگیا کہ مار بے شک پڑے ’’پلے ککھ‘‘ نہ رہے مگر اکڑ نہ جائے تو یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ دم کو سیدھا کرنے والی بات یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۳ء قادیانی جماعت نے پاکستان میں اچھی خاصی جگہ بنالی تھی پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان قادیانی تھے۔ فوج کے سینئر آفیسر جنرل نذیر احمد قادیانی تھے۔ قیام پاکستان سے قبل کے ۵۰ سالوں میں جماعت نے قادیانیوں سے چندے اکٹھے کرکے خوب دولت اکٹھی کرلی تھی۔ جماعت اس دولت کو لے کر پاکستان میں داخل ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد سر ظفر اللہ کی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’کلیم در کلیم‘‘ کیش کروائے۔ مرزا قادیانی کے خاندان کے تمام شہزادوں کو جاگیردار بنا دیا گیا۔ جماعت نے بھی خود زمین حاصل کی۔ جماعت نے اپنا ایک علیحدہ شہر آباد کرنے کے لیے زمین خرید کر ’’ربوہ‘‘ نام سے شہر آباد کیا جس میں جماعت کی ’’حکومت‘‘ تھی اس طرح جماعت نے اپنا اچھا خاصا ’’وزن‘‘ پاکستان میں بنالیا۔
۱۹۵۳ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی اس تحریک ختم نبوت کے ذریعہ عوام الناس کو قادیانیت کے سمجھنے کا موقع ملا۔ عوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ عام مسلمانوں کو علماء نے تحریر و تقریر سے باور کروایا کہ قادیانی نہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ گستاخ رسول بھی ہیں۔ اس طرح قادیانیوں کے خلاف خاصی نفرت پیدا ہونے لگی۔ قادیانی اپنے ’’وزن‘‘ کی وجہ سے یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کے خلاف تحریک چل سکتی ہے۔ تحریک ابھی آغاز پر ہی تھی کہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو ایک جلسہ عام جو قادیانیوں نے ترتیب دیا تھا۔ کراچی کے پارک میں مدعو کیا گیا کہ وہ آ کر تقریر کریں۔ مسلمانوں نے اس بات کا فوراً نوٹس لیا اور دھمکی دی کہ اگر وزیر خارجہ نے اس متنازعہ مذہبی جلسہ میں شمولیت کی تو خطرناک ہوگا۔ مگر قادیانی اس زعم میں تھے کہ حکومت اپنی ہے۔ حالانکہ ان کو یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے تھی کہ اگر ایک وزیر اور ایک جنرل کے قادیانی ہونے کی وجہ سے حکومت اپنی ہوسکتی ہے یا قادیانیوں کی مدد کرسکتی ہے تو حکومت کا سربراہ باقی تمام وزیر اور دیگر تمام جرنیل جس دھڑے میں ہوں گے۔ حکومت ان کی مدد کیوں نہ کرے گی بلکہ ان کی زیادہ ہوگی۔ چنانچہ اپنے اس زعم کے زیر اثر سر ظفر اللہ نے تمام دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرکت کی ان کی آمد کے ساتھ ہی عوام بپھر گئے اور جلوس کی شکل اختیار کرکے جلسہ گاہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ انتظامیہ نے روکنا شروع کیا تو عوام میں جوش اور نفرت مزید بڑھنے لگی۔