مسلمانوں کی زمینوں پر یہ خاندان مبینہ طور پر قابض ہے۔ اور وہ مسلمان کسی ’’مسیحا‘‘ کی تلاش میں ہے۔
اس ’’مخلص خاندان‘‘ نے ایک بیوہ کی زمین دھوکا دہی سے دبا رکھی تھی (۱۱ کنال زمین خرید کر ۱۸ کنال پر قبضہ تھا) اس بیوہ کے مسلمان داماد نے گائوں میں سرکاری ڈھنڈورہ بھی پٹوایا۔ عدالتوں تک گیا مگر زمین واپس نہ لے سکا۔ بعد میں ’’انگوٹھے‘‘ نے کام دکھایا۔
محمود آباد میں مسلمانوں کی ایک مسجد ہے جبکہ قادیانیوں کی عبادت گاہ کے علاوہ عید گاہ اور جنازہ گاہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اپنی عید گاہ کے لیے شاملات دیہہ جگہ پر عید گاہ بنانا چاہی تو قادیانیوں نے رکاوٹ پیدا کرکے مسلمانوں کو عید گاہ بنانے سے روک دیا۔ ابھی تک مسلمانوں کی عید گاہ نہیں بن سکی۔
قادیانیوں نے اپنی عبادت گاہ کے حصہ میں سکول بنا کر منظور کروایا۔ بعد میں گورنمنٹ پرائمری سکول بن گیا قادیانیوں نے جگہ واپس لینے کی کوشش کرتے ہوئے سکول کو باہر نکالنے کی کوشش کی۔ تو ایک مسلمان نے کوشش کرکے گائوں کی شاملات دیہہ جگہ پر سکول کی تعمیر منظور کروالی۔ قادیانیوں نے صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے وہاں سکول نہ بننے دیا اور اب سکول محمود آباد سے دور دوسری بستی میں مذہبہ خانے کے ’’پُرفضا‘‘ ماحول میں بنا ہوا ہے۔
۱۹۹۹ء میں میں اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ قادیانیت کو چھوڑ کر مسلمان ہوا تو اس وقت ہمارا اس ’’مخلص قادیانی پھڈے باز‘‘ خاندان سے جھگڑا چل رہا تھا۔ اس خاندان نے سڑک پر آنے کے لیے ہمارا سرکاری طور پر منظور شدہ راستہ بند کر رکھا تھا۔ یہ کیس عدالتوں میں چلتا رہا۔ مختلف عدالتوں میں ہمارے حق میں فیصلے ہوئے۔ بلدیہ نے تین دفعہ مجسٹریٹ کی موجودگی اور مدد سے تجاوزات گرا کر گلی واگزار کرائی۔ یہ خاندان اپنی ’’پھڈے بازی‘‘ کے باوجود راستہ بند نہ کرسکا۔ مگر جوں ہی ۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء کو ہم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ قادیانی فوراً شیر ہوگئے کہ اب یہ ’’اقلیت‘‘ بن گئے ہیں۔ لہٰذا اب ان کو خوب رگڑا دیں گے۔ چنانچہ فروری کے پہلے ہفتہ میں انہوں نے خاصی نفری لگا کر راستہ بند کرکے مکان اور چار دیواری بنا کر مکمل قبضہ کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ کرلو جو کرنا ہے؟؟؟
مسجد کے پلاٹ پر قادیانیوں کا قبضہ۱۹۹۰ء میں جب میں ایک کٹر قادیانی تھا۔ اس وقت قادیانی عبادت گاہ سے ملحقہ اپنی زمین میں سے ۷ مرلہ زمین جماعت کو عبادت گاہ کی توسیع کے لیے دیا۔ وہ پلاٹ بغیر قبضہ کے پڑا رہا