نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ یہ خلاف حقیقت ہے کیونکہ میں خود طالب علم رہ چکا ہوں۔ ایف ایس سی، بی ایس سی اور ایم ایس سی (فزکس) کے لیے مختلف اداروں میں داخلہ لے کر تعلیم مکمل کر چکا ہوں۔ میں اس وقت کٹر قادیانی ہوا کرتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں قادیانی طلباء کا قائد (زعیم) رہا ہوں۔ شعبہ فزکس اور میتھ میں داخلہ کی کوشش کرکے دیکھی۔ دونوں میں میرٹ کے مطابق داخلہ مل گیا۔ دو سالہ عرصہ میں کئی قادیانی طلباء سے واسطہ رہا۔ ان کے داخلہ کے لیے کوششیں ہوئیں مگر کبھی مذہب آڑے نہیں آیا۔ میرے کزن نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ میں میرٹ پر داخلہ لیا وہ بھی پکا قادیانی تھا اس کے دو بڑے بھائی جماعت کے مربی (مولوی واقف زندگی) تھے۔ ۱۵/۱۶ طالب علم صرف ربوہ سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔
البتہ یہ بات ضرور ہے کہ کسی ادارہ میں جب کسی طالب علم کو داخلہ نہیں ملتا تو اسے یہ نہیں کہا جاتا کہ تمہارے نمبر کم تھے۔ زیادہ محنت سے پڑھائی کی ہوتی تو داخلہ مل جاتا پھر آئندہ محنت کرنا۔ بلکہ اس سے ہمدردی کرتے ہوئے کہیں گے کہ قادیانی جو ہوئے۔ داخلہ کیسے مل سکتا تھا؟ صرف قادیانی سمجھ کر انہوں نے مسترد کیا ہے۔ اس طرح وہ قادیانی زیادہ محنت کرنے کی طرف راغب ہونے کی بجائے سارا الزام ’’تعصب‘‘ پر لگا دے گا۔آج بھی پاکستان کے ہر اچھے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے میں قادیانی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں قادیانیوں کی کمی کی کئی اور وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ تعلیم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ کے خوب صورت نظاروں کی طرف مائل کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آپ کا مستقبل تاریک ہے۔ لہٰذا باہر نکلو جب وہ کسی نہ کسی طرح باہر نکل جائیں گے تو پھر مزدوری کرکے پیسے کمائیں گے پڑھیں گے نہیں۔
میں نے ۱۹۸۰ء میں گورنمنٹ کالج جہلم (ٹاہلیانوالہ) سے بی ایس سی کی آج بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ میرے گائوں اب محلہ، محمود آباد جہلم کی پچاس فیصد آبادی قادیانی ہے۔ آج تک وہاں سے کسی اور نے بی ایس سی نہیں کی۔ بہت سے قادیانی طلباء نے ایف ایس سی اور بی ایس سی میں داخلہ لیا مگر کوئی نہ کامیاب ہوسکا۔ تقریباً تمام طالب علم باہر جاچکے ہیں۔ یہ ہے تعلیم حاصل نہ کرنے کی بنیادی وجہ۔
قادنیوں کے لیے ملازمت کا حصول
۱۹۸۵ء میں میں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور میں لیکچرر شپ کے لیے