علیہ کو پتا ہی نہیں کہ اس نے کیا جرم کیاہے نہ اس سے کوئی جواب طلب کیا گیا ہے۔ نہ کوئی انکوائری ہوئی۔ نہ مجلس عاملہ نے مداخلت کی نہ امیر جماعت نے، نہ نظارتیں اثر انداز ہوئیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ اور وہ بھی امام جماعت کی طرف سے جسے قادیانی ’’خلیفہ وقت‘‘ کہتے ہیں بلکہ ’’خدا کا خلیفہ‘‘ کہتے ہیں۔
(اگر کسی قادیانی کو شک ہو تو اس مذکورہ خط کی فوٹو کاپی حاصل کرسکتا ہے)
قادیانی بتائیں کہ قیام پاکستان سے آج تک کسی ’’ظالم ترین جج‘‘ یا ’’انصاف سے عاری عدالت‘‘ نے بھی کبھی قادیانیوں کے خلاف ایسا فیصلہ دیا ہے؟ یقینا نہیں؟ تو پھر اپنے گھر کو سنبھالو۔ دوسروں کو عدل اور انسانی حقوق کا سبق نہ دو۔ انسانی حقوق کے حوالے سے شور اور واویلا بند کرو۔
قادیانیوں کے ہاتھوں قادیانیوں کی تذلیل
جیسا کہ پہلے مضمون ’’اخراج از جماعت‘‘ میں تفصیل سے بتا چکا ہوں کہ جب کسی امیر جماعت کو کسی قادیانی سے اپنے اقتدار کے حوالے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اسے ’’نیچے لانے‘‘ کے لیے وہ اسے ’’اخراج از نظام جماعت‘‘ کی سزا دلواتا ہے۔ اس مرحلے کو طے کرنے کے لیے وہ ہر قسم کا حربہ ’’فری سٹائل‘‘ استعمال کرتا ہے۔ سزا دلوانے کے بعد اس آدمی کے رشتہ داروں کے ذریعے اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ خدا سے معافی مانگنی ہے۔ ’’خدا کے خلیفہ‘‘ سے مانگنی ہے۔ لہٰذا وہ مجبور ہو کر خط ’’حضور‘‘ کو لکھ دے گا۔ حضور اس خط کو مدعی امیر تک پہنچا دیں گے۔ پھر معافی مانگنے والے کو اتنا ذلیل کیا جائے گا کہ ساری عمر کے لیے وہ سر نیچے کرکے چلنے پر مجبور ہو جائے گا اور یوں اسے ذہنی طو رپر ’’اپاہج‘‘ کر دیا جائے گا۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جس شخص کو فری سٹائل کارروائی کے بغیر، انکوائری بغیر، صفائی کا موقع دئیے بغیر جرم بتائے سزا سنائی جائے گی تو پھر ایسے شخص کے بارے میں پاکستان کی تمام جماعتوں میں اس کا اعلان ہوگا کہ فلاں شخص کو جماعت سے اخراج کی سزا دی جاتی ہے۔ اگر ایک راولپنڈی کے آدمی کو سزا دی جاتی ہے تو سرگودھا کے چوک میں بھی اس کی سزا کا اعلان ہوگا۔ سیالکوٹ کے دور دراز گائوں میں بھی اس کا اعلان ہوگا۔ کراچی اور کوئٹہ میں بھی اعلان ہوگا۔ گویا قادیانی کو پہلے ظلم کا نشانہ بنایا اور پھر پورے پاکستان میں اس کو خوب تذلیل کی۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہاں انسانی حقوق پامال نہیں ہوتے؟
مزید ظلم یہ ہے کہ اس معتوب قادیانی کو کوئی تحریر نہیں دی جائے گی نہ کوئی چارج شیٹ