رہے کہ جماعت کے درج بالا ادارے حکومت کی منسٹری کے برابر کے ہیں) پورے ضلع میں کل تین عہدیداروں کی تقرری درج بالا اداروں کی سفارش اور کلیئرنس کے بعد کی تھی۔ ان میں سے ایک عہدیدار کے بارے میں فیصلہ سنا رہے ہیں فرماتے ہیں:
…’’جہاں تک میری معلومات ہیں آپ خرابی پیدا کرنے والے گروہ کے سربراہ ہیں۔ خواہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ مگر بتاتے سبھی ہی ہیں‘‘……
نوٹ: مرزا طاہر احمد کے دستخطوں سے جاری ہونے والا اصل خط میرے پاس موجود ہے۔
جماعت میں گھسا پٹا جو نظام چل رہا ہے (نظام جماعت پر الگ مضمون پیش کیا جائے گا) اس کے مطابق جس قادیانی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہو اس کے خلاف لوکل جماعت کی مجلس عاملہ قرار داد پاس کرے گی یا سزا کی سفارش کرے گی۔ پھر لوکل امیر جماعت اس ’’سفارش‘‘ کو امیر ضلع پھر ناظر امور عامہ اور ناظر اعلیٰ تک پہنچائے گا پھر ناظر اعلیٰ، امام جماعت سے سزا کی سفارش کرے گا۔ مگر درج بالا کیس میں مرزا طاہر احمد تمام حدود و قیود کو عبور کرتے ہوئے جو فرما رہے ہیں نہ اس بارے میں کوئی انکوائری ہوئی ہے نہ ہی الزام علیہ کو جرم یا الزام کا پتا ہے۔ نہ ہی ’’خرابی‘‘ کی تفصیل بتائی ہے اور نہ ہی اس کی کسی درخواست یا کیس کے جواب ہیں بلکہ ’’سوال گندم اور جواب چنا‘‘ کے مصداق ایک علیحدہ مضمون کے خط کے جواب میں یہ فیصلہ فرما رہے ہیں۔
غور فرمائیے کہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک میری معلومات ہیں اب ان کی معلومات کے ذرائع یا تو نظارتیں ہیں یا پھر امیر ضلع، مقامی صدر جماعت اور مجلس عاملہ ہے جب کہ درج بالا کیس میں ان میں سے کسی نے کچھ کہا نہ لکھا۔ ان کے علاوہ کسی ذریعہ کی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔
غور فرمائیے، فرماتے ہیں ’’خواہ آپ مانیں یا نہ مانیں‘‘ گویا فیصلہ سنا دیا۔ اب یہ فیصلہ چیلنج بھی نہیں ہوسکتا۔ نہ صفائی کا موقع نہ چیلنج کے قابل اور نہ ہی جرم بتایا گیا ہے کہ کس جرم میں سزا دی جا رہی ہے پھر کہتے ہیں ’’مگر بتاتے سبھی یہی ہیں‘‘ (کنوں کچا)گویا سنی سنائی بات پر ایسا فیصلہ دیا جا رہا ہے جو نہ صرف چیلنج نہیں ہوسکتا بلکہ بغیر انکوائری کے بغیر جرم بتائے اور بغیر صفائی کا موقع دئیے سنی سنائی بات پر فیصلہ؟؟؟
یہ ہے جماعت یا امام جماعت کے عدل کی ہلکی سی جھلک …… یہ جماعت کیسے دوسروں کو انسانی حقوق کا درس دے سکتی ہے۔ کیا یہاں انسانی حقوق پامال نہیں ہوئے کہ الزام