فیصلے کو درست سمجھا جانا چاہیے۔ مگر قادیانی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہائیکورٹ میں چیلنج کردے۔ ہائیکورٹ میں ایک بار پھر کیس چلے گا۔ قادیانی کو صفائی کا خوب موقع ملے گا۔ اب اگر چار، چھ ماہ بعد قادیانی کے خلاف فیصلہ ہو جاتا ہے تو قادیانی کو پھر اختیار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بھی جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پھر کیس چلے گا اور کچھ عرصہ بعد اگر فیصلہ قادیانی کے خلاف ہو جاتا ہے تو اب قادیانی کو فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے مگر اس کے باوجود قادیانی کو مزید چانس یہ ملے گا کہ وہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دے کر ایک بار پھر انصاف کے لیے دستک دے سکے۔
اب اگر لوئر کورٹ سے سپریم کورٹ تک کیس چلنے میں ۴/۶ سال لگ جائیں اور قادیانی کو خوب صفائی کا موقع ملے گا تو اس فیصلے کو انصاف پر مبنی سمجھا جانا چاہیے۔ اس طرح کی صفائی کا موقع قادیانیوں کو ملتا رہا ہے اور ملتا ہے۔ مگر اس کے باوجود قادیانی شکوہ کرتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے اور انصاف نہیں ملتا۔ پاکستانی عدالتوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے آج تک ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں دیا جس میں قادیانی کو صفائی کا موقع دئیے بغیر فیصلہ سنا دیا گیا ہو۔
قادیانیوں کا انصافاب ذرا قادیانیوں کا انصاف ملاحظہ فرمائیں۔ جماعت میں عدالت نام کی کوئی چیز نہیں۔ البتہ دھوکہ دہی کے لیے ’’دارالقضائ‘‘ ایک ادارہ قائم ہے جس کے اختیارات امراء کو ’’پریشان‘‘ نہیں کرتے۔ قادیانیوں میں یہ عام بات ہے کہ امیر جماعت نے کسی کے خلاف لکھ دیا۔ جماعت نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ قادیانی کو سزا دے دینی ہے۔ نہ کوئی انکوائری ہوگی اور نہ ہی قادیانی کو جرم بتا کر صفائی کا موقع دیا جائے گا۔ بغیر جرم بتائے، بغیر انکوائری کے اور بغیر صفائی کا موقع دئیے سزا دینا اور پھر وہ سزا کسی طرح بھی چیلنج نہ کرے تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ دوسروں سے انصاف کی بھیک مانگنے والے خود کتنا ظالمانہ نظام رکھتے ہیں؟ ’’اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت‘‘ (اردو دانوں سے درخواست ہے کہ قول و فعل میں اتنا ظالمانہ فرق رکھنے والوں کے لیے کوئی مناسب سا محاورہ ایجاد کریں درج بالا محاورہ بہت نرم ہے) ذرا قادیانی جماعت کے امام اور سربراہ کا انصاف اور عدل کا معیار ملاحظہ فرمائیں۔
امام قادیانی جماعت کا ’’عدل‘‘
جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد اپنے ایک ایسے عہدیدار کے بارے میں فیصلہ دیتے ہیں جس کے بارے میں جماعت کے ادارے، نظارت امور عامہ، نظارت مال، نظارت اصلاح و ارشاد اور نظارت علیا کی طرف سے NOC جاری ہونے کے بعد خود اسے مقرر کیا ہے (واضح