پاکستانی عدالتیں اور نظام جماعت
قادیانیوں کا سب سے بڑا اعتراض اور دنیا میں پاکستان کو ظالم ثابت کرنے کے حوالے سے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ کوئی قادیانی چوری کے جرم میں سزا پائے یا بدعنوانی کی وجہ سے گرفت میں آئے۔ جماعت میں سب لوگ اس سے ہمدردی کرتے ہوئے کہیں گے کہ قادیانیوں جو ہوئے سزا تو ہونی ہی تھی۔ یہ سزا صرف قادیانی ہونے کی وجہ سے ملی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک کیس بھی ایسا نہیں ہوگا کہ کسی قادیانی کے خلاف عدالت میں کیس کیا گیا ہو اور جج قادیانی کو بتائے بغیر اس کو صفائی کا موقع دئیے بغیر براہ راست سزا سنا دے اور پھر وہ چیلنج بھی نہ ہوسکے۔ آج تک ایک کیس بھی ایسا نہیں گزرا۔ اس حوالے سے قادیانی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتے۔
ہوتا یوں ہے کہ کسی نے کسی قادیانی کے خلاف عدالت میں کیس کردیا۔ عدالت قادیانی کو بذریعہ نوٹس کیس کے بارے میں مطلع کرے گی اور اسے مقررہ تاریخ پر طلب کرے گی۔ وہ قادیانی عدالت میں پیش ہوگا اسے کیس (الزامات) کی پوری تفصیل بتائی جائے گی بلکہ کیس کی نقل دی جائے گی۔ اسے وکیل کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اپنی صفائی میں جواب داخل کرنے کے لیے مناسب وقت (کچھ دن) دیا جائے گا۔ وہ قادیانی وکیل کی مدد سے جواب تیار کرے گا اور مقررہ تاریخ کو جمع کروا دے گا۔
کچھ دنوں، ہفتوں بعد دونوں فریقوں کے وکیل آمنے سامنے اس کیس سے متعلق بحث کریں گے۔ پھر جج دونوں فریقوں کو باری باری گواہ لانے اوردیگر ثبوت مہیا کرنے کا موقع دے گا۔ قادیانی کو پورا اختیار ملے گا کہ وہ نہ صرف اپنی صفائی بیان کرے بلکہ اپنے مخالف اور اس کے گواہوں پر خوب جرح کرے۔
اس طرح یہ کیس چلتے چلتے چھ ماہ ایک سال یا پانچ سال تک کا عرصہ لے گا۔ خوب بحث و تکرار کے بعد اگر فیصلہ قادیانی کے خلاف ہو جاتا ہے تو اس فیصلے کو درست سمجھا جانا چاہیے کیونکہ قادیانی کو خوب صفائی کا موقع ملا ہے۔ مگر اس کے باوجود قادیانی کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ سیشن کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے۔ اس اپیل پر (چیلنج پر) کیس دوبارہ شروع ہوگا۔ قادیانی کوایک بار پھر صفائی کا موقع ملے گا۔ وکلاء دوبارہ بحث کریں گے۔ چار، چھ ماہ تک دوبارہ کیس چلنے اور واقعات کو ’’کھنگالنے‘‘ کے بعد اگر قادیانی کے خلاف فیصلہ ہو جاتا ہے تو اب