الحق نے اس فیصلہ کی روشنی میں اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نیا آرڈیننس جاری کر دیا جس میں قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے۔ اپنی عبادت کے لیے مسلمانوں کی طرح ’’اذان‘‘ دینے، اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کہنے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھیوں کو ’’صحابی‘‘ کہنے۔ مرزا صاحب کے جانشینوں کو ’’امیر المومنین‘‘ کہنے اور مرزا صاحب کی ازواج کو ’’ام المومنین‘‘ کہنے سے روک دیا گیا۔
۱۹۷۴ء سے مسلسل اور ۱۹۸۴ء سے خصوصی طور پر جماعت نے باضابطہ طور پر دنیا میں ’’دہائی‘‘ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جس میں دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم ہو رہا ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے سخت قسم کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، قادیانیوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے اور کسی قسم کا انصاف قادیانیوں کو میسر نہیں۔ اس پروپیگنڈہ سے قادیانی مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یورپ نے اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے قادیانیوں کے لیے اپنا دامن پھیلا رکھا ہے اور قادیانی جوق درجوق یورپ میں داخل ہو رہے ہیں۔ مگر ’’داخل‘‘ ہونے کے ’’آداب‘‘ سے عاری ہیں۔ یعنی جعلی کاغذات کی بنا پر داخل ہونا، پھر جعلی کاغذات تیار کرکے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنا اور پھر ’’پناہ‘‘ حاصل کرنا۔ قادیانیوں کو مشکوک بنا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ یورپ کا قادیانیوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب انہوں نے دھڑا دھڑ کیس مسترد کرنے شروع کردئیے ہیں۔ اس سے نہ صرف قادیانیوں کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ پاکستان بھی بدنام ہو رہا ہے۔ ۹۸ فیصد قادیانیوں کے کیس جھوٹے اور جعلی کاغذات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ قادیانیوں تو ’’ترستے‘‘ ہیں کہ ان پر ظلم ہو اور وہ اس کا ثبوت دنیا کو دکھا سکیں۔ مگر ’’ظلم کی عدم دستیابی‘‘ پر وہ پیسے دے دلا کر جعلی ایف آئی آر درج کروا کر اس کی نقل حاصل کرکے ’’گزارا‘‘ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے برملا قادیانی مظلوم ہیں کہ ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ’’مقدور بھر ظلم‘‘ بھی دستیاب نہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں قادیانی جو دنیا میں اپنے مظلوم ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔ خود کتنے منصف مزاج، نرم دل، صلح جو اور انسانی حقوق کا تحفظ یا خیال کرنے والے ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر اتنا کچھ لکھا جاسکتا ہے کہ لکھاری لکھتے لکھتے تھک جائے اور قاری پڑھتے پڑھتے ’’رج‘‘ جائے۔ سمجھ نہیں آتی کہ قادیانی کے کس کس ظلم کی تصویر پیش کروں۔ ’’عدل جماعت اصل میں عکس یزید ہے‘‘ اس عنوان پر ایک تفصیلی مضمون بعد میں آئے گا۔ اس وقت انسانی حقوق کے حوالے سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔