آئل کے کیپسول منگوائے گئے اور طلباء میں ۵ روپے تا ۱۰ روپے فی کیپسول فروخت کیے گئے اگر سویا بین فائدہ مند تھی یا ہے تو اس مہم کو ختم کیوں کر دیا گیا؟ اب کبھی اس بارے میں تبلیغ نہیں کی جاتی۔ اب تو عام استعمال کے لیے سویا بین آئل مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود امام قادیانی جماعت مرزا ناصر احمد کی خواہش کہ ۱۰ سالوں میں ۱۰۰ عبد السلام کی سطح کے سائنس دان چاہئیں۔ بالکل پوری نہ ہوسکی بلکہ ایک فیصد بھی پوری نہ ہوئی، بلکہ آج ۲۰ سال گزر چکے ہیں اس کے باوجود ایک بھی سائنس دان اس سطح کا پیدا نہ ہوسکا۔ قادیانی جماعت نے یہ تأثر دیا کہ ڈاکٹر عبد السلام کو قادیانیت کی وجہ سے یہ ترقی ملی ہے ان سے کوئی پوچھے کہ آج تک جو ڈیڑھ دو سو دیگر عالمی سائنس دانوں کو یہ انعام مل چکا ہے کیا وہ بھی قادیانیت کی وجہ سے ملا ہے؟ یا قادیانیت کی مخالفت کی وجہ سے؟
اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جماعت کے اس فارمولہ کے مطابق جس مذہبی جماعت کے نوبل انعام یافتگان کی تعداد زیادہ ہوگی وہ سچی ہوگی۔
ڈاکٹر عبد السلام کی اس کامیابی کو خواہ مخواہ اپنی طرف کھینچ کر اسے متنازعہ بنا دیا اور تعصب کا مظاہرہ کرکے عوام کی اکثریت کو ان کے خلاف کر دیا۔ حالانکہ وہ ایک قومی ہیرو تھے مگر جماعت نے انہیں زیرو کر دیا۔
طاعون اور قادیانی جماعت
۱۹۰۰ء کے لگ بھگ مرزا غلام احمد قادیانی نے اعلان کیا کہ ملک میں خصوصاً پنجاب میں طاعون پھوٹنے والی ہے اور اس سے بہت تباہی آئے گی مگر قادیانی اس سے محفوظ رہیں گے اور یہ ایک معجزہ کی حیثیت رکھے گی کہ باقی لوگ مریں گے مگر قادیانی اس سے محفوظ رہیں گے۔طاعون نے کئی سال لگا کر پورے ہندوستان میں تباہی مچائی۔ اس کی لپیٹ میں قادیانی آئے۔ یہ کیونکہ بہت پرانی بات ہے اس کا ریکارڈ کتابوں اخبارات میں تو ہوگا مگر میں اس وقت وہ بات بتانا چاہتا ہوں جو شاید اخبارات اور کتابوں میں نہ ہو مگر یہ ہمارے اپنے گائوں محمود آباد جہلم سے متعلق ہے۔
۱۹۸۰ء میں، میں نے محمود آباد کی تاریخ لکھنے کے لیے اس وقت موجود بزرگوں سے معلومات اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ ۱۹۰۰ء تا ۱۹۲۴ء تقریباً ہر سال ان علاقوں میں طاعون نے تباہی مچائی تھی جبکہ ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۴ء میں تقریباً ۳۵ افراد اس طاعون کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
محمود آباد کی اس وقت کی آبادی ۸۰ فیصد قادیانی افراد پر مشتمل تھی طاعون سے فوت