کے جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ عوام شامل ہوئے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اور لوگوں کے اس کے حق میں جذبات دیکھنے اور سننے والے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے ڈیوٹی کے دوران وردی میں فوت ہو کر شہید تو ہوگیا۔ قادیانی اس سے انکار نہیں کرسکتے مگر اس کا کیا کریں کہ جو لوگ ایک دن قبل اس کے سخت خلاف تھے وہ فوراً ہی اس کے حق میں ہوگئے یہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ آج اس واقعہ کو بارہ سال ہوچکے ہیں ہر سال اس کی برسی میں لاکھوں عقیدت مند جاتے ہیں یہ عقیدت مند کون ہیں؟ پھر سارا سال اس کے مزار پر ہر روز اور ہر وقت کچھ نہ کچھ لوگ دعا کرنے اس کے مزار پر جا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مزار راستے میں نہیں ہے مگر پھر بھی لوگ اس کی طرف جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی اور سربراہ ایسا گزرا ہو جیسے اتنی عقیدت ملی ہو۔
اگر تو یہ قادیانیوں کی طرف سے ایک سزا اور انجام ہے تو ایسا انجام تو ہر مسلمان خوشی سے قبول کرے گا جس سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں نفرت کی بجائے ہمدردی اور عقیدت بھر جائے۔ قادیانی تو جس خدا کو پیش کرتے ہیں اس کی بڑی تعریفیں کرتے تھے کہ ہر مشکل کام کو آسان کرسکتا ہے مگر تجربات نے ثابت کیا کہ قادیانیوں کا خدا مسلمانوں کے خدا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں نے ایک خدا کو ساری طاقت کا سرچشمہ سمجھ رکھا ہے جبکہ قادیانیوں کے سینکڑوں خدا ہیں۔ اسی طرح طاقت تقسیم ہوگئی ہوگی۔ (جماعت کے مبینہ خدائوں کا تذکرہ اگلے کسی مضمون میں)
بھٹو کی موت پیپلز پارٹی کے مخالفین کے لیے معجزہ تھی تو جنرل ضیاء الحق کی موت پیپلزپارٹی کے لیے، قادیانی خواہ مخواہ اپنا لچ تلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر قادیانیوں کے خلاف کام کرنے یا مخالفت کرنے پر کسی کو سزا ہوسکتی تھی تو آج تک کئی سو علماء اسلام عبرت ناک انجام کا شکار ہو چکے ہوتے کیونکہ سینکڑوں علماء کی کوششوں سے قادیانی اتنا نقصان اٹھا چکے ہیں کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ ان کے خلاف اتنا لٹریچر تیار ہوچکا ہے جس کا عشر عشیر بھی قادیانی نہیں کرسکتے۔ عوام الناس کے ذہنوں میں قادیانیوں کے خلاف اتنا کچھ بھر دیا گیا ہے کہ اب قادیانیوں کے بارے میں کسی بھی اچھے تأثر کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۰ء تک مسلسل قادیانیوں کا گراف نیچے جا رہا ہے اور وہ اس سٹیج تک پہنچ چکا ہے کہ اوپر اٹھ ہی نہیں سکتا۔
۱۹۷۴ء کے بعد پیدا ہونے والا بچہ جو اب ۲۵ سال کے قریب ہے اور اپنی تعلیم بھی