نئے الزامات، اشارات کا تذکرہ ملتا رہا اور جماعت کو حوصلہ دیا جاتا رہا کہ ابھی جماعت کے حق میں یہ معجزہ ہوگا اور ابھی یہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ۱۹۸۷ء کے شروع میں علماء اسلام کو پکارتے ہوئے مباہلہ کر دیا۔ مگر کئی مہینے اور سال گزرنے کے باوجود کسی عالم کو کچھ نہ ہوا۔ ۱۹۸۸ء میں اگست کے مہینہ میں جنرل ضیاء الحقؒ ایک حادثے میں مارے گئے۔
جماعت کی طرف سے سخت قسم کی خوشی کا اظہار کیا گیا، نعرہ تکبیر بلند ہوئے کہ مباہلہ ہوگیا اور جنرل ضیاء الحق انجام کو پہنچا اسے بہت بڑا معجزہ قرار دیا گیا۔
اب ذرا اس بات پر غور کیا جائے کہ ضیاء الحقؒ اگر قادیانیوں کے خلاف کچھ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آئے تو باقی ۳۱ افراد کا کیا قصور تھا؟ مرزا صاحب نے اس بارے میں موقف اختیار کیا کہ فرعون کے ہاتھ، بازو بھی ساتھ ہلاک ہوئے یعنی اس کے ساتھی۔ حالانکہ یہ ۳۱ افراد ضیاء الحقؒ کے ساتھی نہ تھے چند ایک کے علاوہ باقی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ کوئی پائلٹ تھا تو کوئی ٹیکنیشن۔ یہ سب افراد ضیاء الحق کے ساتھ مل کر قادیانیوں پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے جس طرح فرعون کے ساتھی اس کے ساتھ مل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر حملہ آور ہوئے تھے۔ کیا خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہ تھا کہ وہ اسے علیحدہ ہلاک کرتا؟ پھر کیا جنرل ضیاء کی گرفت کے بعد وہ فیصلہ یا آرڈیننس ختم ہوگیا یا کسی کو حبس بے جا میں رکھا ہوتا ہے تو عدالت مجرم کو نہ صرف سزا سناتی ہے بلکہ متاثرہ فریق کے نقصان کی تلافی بھی کی جاتی ہے۔ اغوا شدگان کو بازیاب بھی کرایا جاتا ہے۔ یا مالی نقصان پورا کرنے کے احکامات صادر ہوتے ہیں کیا یہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر الزام نہیں کہ اس نے انصاف کرتے ہوئے متاثرہ فریق کی داد رسی نہیں کی یا تو خدا نے غلط فیصلہ دیا۔ (نعوذ باللہ) یا پھر اس فیصلے کا قادیانیوں کے ساتھ تعلق نہیں (یہی ممکن ہے) اس واقعہ کا دوسرا پہلو بھی غور طلب ہے کہ ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء سے قبل کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں پاکستان میں جگہ جگہ جنرل ضیاء الحقؒ کے خلاف جلوس نکل رہے تھے اس کی پالیسیوں پر تنقید ہو رہی تھی بلکہ ایک جلوس کا میں خود عینی شاہد ہوں جس میں جنرل ضیاء الحقؒ کے خلاف جنرل ایوبؒ والے ’’الفاظ‘‘ کا ورد کیا جا رہا تھا اور یوں عوام میں جنرل ضیاء کے خلاف سخت نفرت تھی۔ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی خلاف تھی، مسلم لیگ کی حکومت توڑ کر (محمد خان جونیجو کی حکومت) اسے بھی اپنے خلاف کرلیا تھا۔ اور علماء کے شریعت بل کو روک کر انہیں بھی اپنے خلاف کر رکھا تھا۔ مگر جوں ہی اس کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ دیکھتے دیکھتے لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے ہمدردی بھر گئی۔ لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور اس