اور یہ کوئی معجزہ رکھتا ہے تو ایک بار شہزادہ عبد اللطیف کے انجام کو پڑھیں وہ بھی تو کسی جماعت کے لیے معجزہ بن گئے ہوں گے؟
مزید سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر قادیانیوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مجرم کو سزا دی تو جو جرم اس نے کیا تھا اور جس کی وجہ سے قادیانیوں کو تکلیف ہوئی تو وہ بھی تو ختم کرتا۔ قانون ختم ہو جاتا، اسمبلی کے ارکان معافی مانگتے۔ جنہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا وہ سزا پاتے اور قادیانی ایک بار پھر پہلے سے بہتر شان سے فیلڈ میں آ جاتے۔ مگر ایسا نہیں۔ لہٰذا بھٹو کی موت کو کسی اور کے لیے ہی رہنے دیں۔ قادیانیوں کو اپنی طرف کھینچ کر کیش نہیں کروانا چاہیے۔
پھر یہ خدا کی طرف سے کیسی سزا ہے کہ پاکستان کے ۳/۴ کروڑ عوام اسے شہید سمجھتے ہیں اس کے لیے قرآن خوانی کرتے ہیں اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں اتنے تو دل مرزا غلام احمد قادیانی کے لیے نہیں دھڑکتے۔ جتنے بھٹو کے لیے دھڑکتے ہیں حالانکہ وہ عام قسم کا ایک سیاسی لیڈر تھا، کوئی مذہبی یا روحانی شخصیت نہ تھا۔جنرل ضیاء الحق ؒ
۱۹۷۴ء کے بعد قادیانیوں کا معاشرے میں جینا دو بھر ہوگیا۔ قادیانی چوری چھپے نوکری کرتے اس خوف میں مبتلاء رہتے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے کہ میں قادیانی ہوں۔ سفر کے دوران، کھیل کے دوران، تعلیم کے دوران اور شاپنگ کے دوران قادیانی بے حد محتاط رہنے لگے۔ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیتے کہ میں قادیانی ہوں۔ بھٹوؒ کی وفات کے بعد قادیانی ایک بار پھر شیر ہوگئے مگر ابھی پوری طرح شیر نہیں ہوئے تھے کہ ضیاء الحقؒ نے قادیانیوں پر ہاتھ ڈالا۔ ۱۹۸۳ء سے قادیانیوں کے خلاف ایک بار پھر تحریک زور پکڑنے لگی اور اب قادیانیوں پر مزید پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ چنانچہ اپریل ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحقؒ نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی طرز پر اذان پر دینے سے روک دیا۔ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کہنے، اپنے آپ کو مسلمان کہنے، یا ظاہر کرنے پر پابندی لگا دی۔ مرزا غلام احمد کے جانشینوں کے لیے ’’امیر المومنین‘‘ کے الفاظ۔ مرزا غلام احمد کی بیگمات کے لیے ’’ام المومنین‘‘ مرزا صاحب کے ساتھیوں کے لیے ’’صحابی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔
اب قادیانی بالکل زمین پر لگ گئے۔ مرزا طاہر احمد مئی ۱۹۸۴ء میں انگلینڈ چلے گئے وہاں سے خطبات کے ذریعے قادیانیوں کے حوصلے بلند کرنے کی کوشش کرنے لگے اور ساتھ ساتھ