پارٹی کو کامیابی ملی۔ ذوالفقار علی بھٹو صدر۔ وزیر اعظم بن گئے۔ ۱۹۷۴ء میں ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کے ساتھ ایک جھگڑے پر چلنے والی تحریک، تحریک ختم نبوت کے طور پر سامنے آئی اور معاملہ خراب ہوگیا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو قادیانیوں کو اپنا محسن سمجھتے تھے لہٰذا وہ ان کے خلاف کچھ نہ کرنا چاہتے تھے۔ معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا تو قومی اسمبلی میں جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو طلب کیا گیا۔ ۱۱ دن تک ان سے جماعت کے بارے میں پوچھا جاتا رہا۔ جماعت نے تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا۔ مگر انداز بیان ایسا تھا کہ تمام ممبران کو اپنے مخالف کرلیا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی پڑھنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مرزا ناصر احمد نے اپنے انداز بیان سے ممبران کو قائل کرنے کی بجائے ان کو خلاف کرکے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ خلاف فیصلہ دیں۔ چنانچہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تو ذوالفقار علی بھٹو اس فیصلہ کو ماننے کے پابند تھے لہٰذا یہ فیصلہ ہوگیا۔
اب ظاہر ہے ذوالفقار علی بھٹوؒ کا براہ راست اس فیصلہ میں عمل نہ تھا بلکہ اس فیصلہ تک لانے میں اہم کردار مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مودودیؒ اور دیگر علماء اسلام نے ادا کیا۔ قادیانیوں کو جانی مالی نقصان ہوا تو وہ علماء اسلام نے مسلمانوں میں غیرت ایمانی کو اجاگر کیا، ردعمل کے طور پر یہ نقصان سامنے آیا۔
جب ذوالفقار علی بھٹوؒ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا تو ۱۹۷۷ء کے جلسہ سالانہ ربوہ پر قادیانی شاعر ثاقب زیروی نے ’’انجام‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں فرعون اور ہامان کے انجام کا تذکرہ کرکے ذوالفقار علی بھٹوؒ کو اسی لائن میں کھڑا کیا گیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی تو قادیانیوں نے مرزا صاحب کا الہام دریافت کرلیا کہ لکھا۔ ’’کلب یموت علیٰ کلب‘‘ کہ ایک کتا ہے وہ کتے کے الفاظ پر مرے گا یعنی کتے کے جتنے اعداد بنتے ہیں۔ اس کے مطابق تفصیل یہ ’’بنائی‘‘ گئی کہ ذوالفقار علی بھٹوؒ کے بارے میں یہ پیشگوئی ہے کہ اس کی عمر ۵۲سال اور اعداد کا مجموعہ بھی ۵۲ بنتا ہے لہٰذا وہ نہیں بچا۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جنہوں نے قادیانیوں کو کافر قرار دلوایا وہ تو بچ گئے اور جس کی نہ نیت تھی اور نہ ہی براہ راست کردار ادا کیا وہ پھنس گیا۔ کیا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو اصل مجرم نظر نہیں آئے اور جو اوپر تھا اسے رگڑ دیا گیا۔ پھر اگر اس طرح کا انجام (پھانسی) ذلت ناک ہے