شہزادہ عبد اللطیف افغانستان کے بادشاہ کے قریبی افراد میں سے تھے وہ ہندوستان آئے تو مرزا غلام احمد کے بارے میں سنا۔ قادیان چلے گئے اور مرزا صاحب کی بیعت کرکے قادیانی ہوگئے۔ وہ جب واپس افغانستان گئے تو ان کے حلقہ احباب میں پتہ چل گیا کہ یہ قادیانی ہوگئے ہیں۔ یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس نے مفتی کے پاس کیس بھیجا تو انہوں نے واجب القتل (سنگسار) قرار دے دیا۔ سب احباب نے ان کو قادیانیت چھوڑنے کے لیے کہا مگر وہ نہ مانے۔ چنانچہ اس سزا پر عمل کرتے ہوئے انہیں کھلے میدان میں کمر تک زمین میں گاڑا گیا اور پھر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہوگئی اور آخر پتھر مار مار کر مار دیا گیا۔ یعنی سنگسار کردیا گیا۔ قادیانی لٹریچر سے ہی پتہ چلتا ہے کہ پتھروں کا اتنا بڑا ڈھیر لگ گیا کہ شہزادہ صاحب نظر نہ آتے تھے پھر پہرہ لگ گیا کہ کوئی ان کی لاش نہ لے جاسکے۔ چند دن بعد رات کے اندھیرے میں کسی مرید نے ان کی لاش نکال کر کسی نامعلوم جگہ پر دفن کی مگر بعد میں وہاں سے کسی نے نکال کر غائب کر دی۔
اب ذرا غور کرنے والی بات ہے کہ ایک آدمی جو پہلے باعزت زندگی گزار رہا تھا۔ صوم صلوٰۃ کا پابند، نیک، متقی، پرہیزگار شخص تھا (یہ اوصاف خود قادیانی بتاتے ہیں) جب وہ قادیانیت قبول کرتا ہے تو اسے سر عام پتھر مار مار کر سنگسار کر دیا جاتا ہے نہ اس کا جنازہ پڑھا جاتا ہے اور بے گورو کفن پڑا ہے۔ کیا قادیانیت قبول کرنے پر خدا کی طرف سے سخت ترین سزا نہیں تھی؟ اگر ایک شخص قادیانیت کو چھوڑ کر اس انجام کو پہنچتا پھر کیا یہ سزا ہوتی؟ مگر قادیانی اسے ’’شہید‘‘ کا لقب دے کر فخر سے بتاتے ہیں۔
کہتے ہیں مرزا صاحب نے افغانستان کی سرزمین کے لیے بددعا کی اور حکمرانوں کے لیے بہت کچھ کہا۔ کیا عبد اللطیف کی ’’قربانی‘‘ یا مرزا صاحب کی دعائیں یا بددعائیں رنگ لائیں؟ کیا افغانستان میں قادیانیت تیزی سے پھیلی اور وہاں قادیانیت تناور درخت کی طرح موجود ہے؟ بلکہ اس کے بالکل الٹ ہے۔
عبد اللطیف کے اس افسوسناک انجام کا تذکرہ اس لیے کر دیا گیا ہے کیونکہ آگے اسی قسم کے معجزات کا ذکر ہوگا یہ ان کے لیے تریاق کا کام دے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو ؒ
۱۹۷۰ء کے عام الیکشن میں قادیانی جماعت نے کھل کر پیپلز پارٹی کی حمایت کی۔ قادیانی نوجوان پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے بھی زیادہ سرگرمی سے الیکشن میں مصروف رہے۔ پیپلز