شمولیت کے لیے لندن جاچکے ہیں۔ کئی درجن باقاعدہ ویزے لے کر قادیان (ہندوستان) جلسہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ حالانکہ سرکاری ملازم گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کرسکتا مگر قادیانی سرکاری ملازم جلسہ سالانہ میں شمولیت اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی اجازت کے تمام پابندیوں کو توڑ کر نہ صرف انگلینڈ جاتے ہیں بلکہ ہندوستان بھی چلے جاتے ہیں یہاں پر ان کو پابندیاں نہیں روکتیں۔
یہ کیا ہوا مسلمانوں سے قادیانی ہونے والے اصل اسلام سے بھی گئے اور ایک خالص دینی فریضہ نظر انداز کر گئے کیونکہ قادیانیوں کی کم از کم ۹۵ فیصد تعداد مسلمانوں سے قادیانی ہوئی ہے۔ وہ مذہبی اور دینی لحاظ سے بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی کمزور ہو گئے۔ قادیانیوں نے اپنے عمل سے مرزا قادیانی کو کیا ثابت کیا۔ فیصلہ خود کریں؟
قادیانیوں کی اخلاقی حالت
آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کا کیا پھل ملا؟ دینی لحاظ سے تو مسلمانوں سے قادیانی ہونے والوں کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ نہ نماز، نہ روزہ، نہ حج، نہ زکوٰۃ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے کیسا معاشرہ وجود میں آیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ قادیانی بڑے شریف، بھلے مانس، ڈیوٹی کے پابند اور اچھے اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ آگے پڑھیے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہر شہر، ہر محلے اور ہر محکمہ میں قادیانیوں کی آبادی یا تعداد اتنی کم ہے کہ خاصی مشکل سے تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اپنی اس کم مائیگی کو وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا جہاں ہیں وہاں پر سانس کھینچے گزارہ کر رہے ہیں۔ ۱۹۷۴ء کے بعد سے ان کا گراف مسلسل نیچے جا رہا ہے اور وہ عام مسلمانوں میں گھل مل کر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ ایک طرف مسلمانوں نے اپنی ذہنی بیداری کی وجہ سے ان کو ایک طرف کر دیا تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت نے ان کو مسلمانوں سے الگ کرنے کی جہد مسلسل سے اب انہیں آزادی سے جینے کے حقوق سے بھی عاری کردیا ہے۔ ان کو اتنا متعصب بنا دیا گیا ہے کہ وہ عام مسلمانوں سے عام تعلقات رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ نہ کسی کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں، نہ کسی کی فاتحہ خوانی، نہ کسی کے قل میں اور نہ ہی کسی کے چالیسویں میں۔ لہٰذا جب کسی کے عمل میں شامل نہ ہوں گے تو وہ بھی پھر آپ کو اپنے پاس بھٹکنے نہ دیں گے۔ خوشی میں شامل نہ ہونا اتنا قابل اعتراض نہیں جتنا کہ غمی میں شمولیت نہ کرنا۔