دعوئوں کو پرکھنے کے لیے دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کے فارمولے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرزا صاحب کے دور میں تو دلائل و براہین کی ضرورت تھی مگر اب ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کے فارمولے کے مطابق پرکھا جائے گا کیونکہ وقت نے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کردیا ہے۔
ایک سائنس دان علم فلکیات کے متعلق دعویٰ کرتا ہے کہ اتنے سال بعد فلاں وقت سورج گرہن ہوگا اور فلاں فلاں علاقے میں دیکھا جاسکے گا۔ اس کی وجہ سے دنیا کے فلاں علاقے میں طوفان آئیں گے۔ موسم تبدیل ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس سائنس دان کے دعوے کو لوگ اس کے علم اور تجربے کی بنیاد پر اہمیت دیں گے بعض کہیں گے کہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں یہ بڑا سائنس دان ہے۔ کچھ کہیں گے باتیں تو ٹھیک نظر آتی ہیں کچھ کہیں گے انتظار کرلیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس کا دعویٰ کتنا سچا ہے اب اگر مذکورہ عرصہ گزرنے کے بعد وہ پیش گوئی پوری نہیں ہوتی تو تینوں گروپ (سب لوگ) اسے ناکام قرار دیں گے۔
آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ کیا مرزا صاحب کے دعوے اور خواہش کے مطابق قادیانیوں میں اسلامی روح پیدا ہوچکی ہے۔ کیا خالص اسلامی معاشرہ وجود میں آچکا ہے؟ کیا قادیانی عبادات و صدقات میں ان کے بقول ’’پرانے مسلمانوں‘‘ سے نمایاں طور پر آگے نظر آتے ہیں؟ کیا قادیانی اعمال صالح کے ’’حسین نمونے‘‘ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ قادیانیوں نے اپنے عمل سے مرزا صاحب کو کامیاب ثابت کیا یا ناکام ثابت کیا۔ سب سے پہلے عبادات کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔
نماز
قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیا گیا ہے جماعت بھی اس کو تسلیم کرتی ہے اور نماز کے متعلق تمام سربراہان جماعت نے خصوصی توجہ بھی دی ہے۔ تقریر و تحریر سے اس کی اہمیت کو واضح بھی کیا اور خاصا لٹریچر بھی اس کے متعلق تیار کیا اب اگر افراد جماعت کے عمل کو دیکھیں تو بالکل الٹ نتیجہ سامنے آتا ہے۔ قادیانی جماعت میں عملی طور پر نماز کی بالکل اہمیت نہیں ہے۔ میں ضلع جہلم، چکوال، راولپنڈی اور تحصیل گوجر خان کی جماعتوں کا نقشہ پیش کرسکتا ہوں جو میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے بلکہ بہاولپور شہر کی جماعت کی نماز کے بارے میں حالت بیان کرسکتا ہوں۔ ان سب جماعتوں میں یہ حالت ہے کہ اگر جمعہ کی نماز میں ۵۰ افراد آتے ہیں۔ (اس سے