ہر مذہب کے افراد کے نام ان کے مذہب کے عکاس ہوتے ہیں۔ عموماً سنگھ کے لفظ سے سکھ مذہب ظاہر ہوتا ہے۔ یوسف مسیح، پرویز مسیح جیسے ناموں سے عیسائی مذہب کی عکاسی ہوتی ہے۔ محمد صدیق، محمد شریف جیسے ناموں سے مذہب اسلام واضح ہوتا ہے۔ قادیانی جماعت نے اپنے آغاز سے خود کو مسلمانوں کا ایک فرقہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ آہستہ آہستہ اپنے فرقہ کو اصل اسلام اور دیگر فرقوں کو دو نمبر اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مرزا محمود کے دور امامت میں قادیانی جماعت متشدد اور متعصب حد تک پہنچ کر اسلام سے علیحدہ ہوتی چلی گئی مسلمانوں سے ہر قسم کے میل جول کو شرعی طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ بلکہ مرزا محمود کے بھائی مرزا بشیر احمد ایم اے نے مسلمانوں کے بارے میں ’’کافر بلکہ پکے کافر‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے دوری کو اور بڑھا دیا۔
نام کے حوالے سے ایک سروے کیا گیا ہے جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قادیانیوں میں نام کیسے رکھے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے نام ان کی مذہبی سوچ کے عکاس ہوں گے۔ ضلع جہلم میں محمود آباد ایک ایسا گائوں (اب محلہ) ہے جہاں کی اکثریت قادیانی ہوا کرتی تھی۔ اور اسے ضلع جہلم میں قادیانیت کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہر قسم کی مذہبی رسومات میں وہ عملاً آزاد ہیں بلکہ نمایاں ہیں۔
محمود آباد جہلم کے قادیانی افراد کے ناموں کے سروے میں محمدؐ اور احمد ناموں کی نسبت تلاش کی گئی ہے۔ مثلاً ۷۰ افراد کے نام سامنے رکھے ان میں ۴۰ ایسے افراد ہیں جن کے ناموں کے ساتھ محمدؐ یا احمد کا لفظ استعمال ہوا ہے اب دیکھا یہ گیا ہے کہ ۴۰ افراد میں سے کتنے فیصد نے محمدؐ اور کتنے فیصد نے احمد نام رکھا ہوا ہے اور اس طرح ایک دلچسپ سروے رپورٹ تیار ہوئی ہے۔
سروے رپورٹ
محمود آباد جہلم میں پیدائش رجسٹر کے مطابق ۱۹۳۳ء تا ۱۹۴۱ء پیدا ہونے والے قادیانی بچوں کے ناموں کا جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ محمدؐ کے نام والوں کی تعداد ۴۸ فیصد اور احمد والوں کی ۵۲ فیصد ہے۔ واضح رہے ۱۹۱۴ء میں مرزا محمود احمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جماعت کی ’’برین واشنگ‘‘ شروع کر دی تھی۔ لہٰذا ۱۹۳۳ء تا ۱۹۴۱ء قادیانی افراد ’’دائرہ محمد‘‘ سے نکل ’’دائرہ احمد‘‘ میں داخل ہو رہے تھے۔
۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۲ء کے عرصہ میں پیدا ہونے والے افراد میں یہ نسبت یوں بنی کہ محمدؐ کے نام والے ۲۸ فیصد رہ گئے اور احمد کے نام والوں کی تعداد بڑھ کر ۷۲ فیصد ہوگئی۔ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۱ء