بعد میں کہا: ’’میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار بات اور آگے بڑھی تو یہاں تک پہنچی۔‘‘
(براہین پنجم ص ۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص ۱۳۳)
محمدؐ پھر اتر آئے ہیں جہاں میں
مگر ہیں پہلے سے بڑھ کر اپنی شاں میں
محمدؐ دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر قادیان ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)
مرزا غلام احمد صاحب نے ان اشعار کو فریم کروا کر اپنے گھر لگوا لیا۔
مرزا صاحب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہوگئے۔ ان کے بعد ۱۹۱۴ء میں ان کے بیٹے مرزا محمود احمد نے جماعت کے دوسرے ’’خلیفہ‘‘ کے طور پر اقتدار سنبھالا تو انہوں نے احمدیت کو منظم کرتے ہوئے بالکل الگ امت کے طور پر پیش کردیا۔ مرزا غلام احمد کے دعویٰ کی وجہ سے تمام مسلمان فرقوں نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو مرزا محمود احمد نے ان کی اس کوشش کو عملی شکل دیتے ہوئے قادیانیوں کو باور کرایا کہ تمام مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد کو نہیں مانا۔ کافر اور غیر مسلم ہیں۔ ان کے ساتھ نماز، روزہ کے اشتراک سے اجتناب کیا جائے معاشرتی تعلقات کو توڑتے ہوئے جماعت سے کہا کہ نہ مسلمانوں کو رشتے دئیے جائیں اور نہ ہی ان سے لیے جائیں۔ حتیٰ کہ ان کے ساتھ جنازہ میں شامل ہونے اور فاتحہ خوانی سے بھی منع کردیا۔
دوسری طرف قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ صف میں جہاں ایک آنے والے نبی کی خبر دی گئی ہے اور اس کا نام احمد رکھا گیا ہے۔ اسے مرزا غلام احمد کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصل میں یہ دوسرے دور میں آنے والے ’’نبی‘‘ (مراد مرزا غلام احمد) کی بالواسطہ خبر دی گئی ہے جس کے مصداق مرزا غلام احمد ہیں اور پھر کلمہ طیبہ میں رسول اللہ کے ذکر میں مرزا غلام احمد کا بالواسطہ ذکر بھی کر دیا کہ اب اس سے مراد محمد رسول اللہ کے ’’روحانی فرزند‘‘ مرزا غلام احمد ہیں جو کہ اصل میں اس دور کے محمد رسول اللہ ہی ہیں۔اس تفسیر اور اس کے عملی نفاذ سے جو صورت بنی وہ ذیل کے دلچسپ سروے رپورٹ سے واضح ہوگی۔ محمدؐ سے احمد تک۔ (ایک دلچسپ سروے رپورٹ)