ذمہ تین سے چار ہزار روپے بقایا ہوچکا ہوگا۔ اس طرح اگر کسی کی تنخواہ دس ہزار روپے ماہوار ہو تو اسے سالانہ ۱۲ ہزار روپے سے زیادہ دینا پڑے گا۔
ان چندوں کے علاوہ ایک اور نظام بھی رائج ہے وہ اس طرح کہ اگر کوئی چاہے کہ اسے مرنے کے بعد ’’ربوہ‘‘ میں خاص قبرستان ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں دفن کیا جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چندہ عام ۲۵۔۶ فیصد کی بجائے ۱۰ فیصد کے حساب سے چندہ دے گا اور اپنی جائیداد کا ۱۰ فیصد صدر انجمن احمدیہ (قادیانی جماعت) کے نام کر دے گا اور آئندہ جتنی بھی آمدن پیدا کرے گا اس کا ۱۰ فیصد مرکز کو دیتا رہے گا۔ یہ شرائط اس دن سے لاگو ہوں گی جس دن سے وہ وصیت کرے گا اب ایک آدمی فوت ہوگیا اس کی لاش ربوہ پہنچ چکی ہے مگر اس کی جائیداد کا ۱۰ فیصد ابھی نام نہیں لگایا اس کے ذمہ چندہ کا بقایا ہے لہٰذا اس کی تدفین روک دی جائے گی جب تک اس کے وارثان تمام حساب بے باک نہیں کر دیتے تدفین نہیں ہوسکتی۔
اگر ایک قادیانی درج بالا چندوں کی ادائیگی سے انکار کر دے تو وہ قادیانی رہ نہیں سکتا۔ اگر وہ چندہ نہیں دیتا یا ادائیگی میں دیر کر دیتا ہے تو وہ چندہ اس کے نام بطور بقایا نام ہو جائے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لواحقین سے وصول کیا جائے۔ جس کے ذمہ بقایا ہو جائے اس کا نام تشہیر کیا جائے گا وہ جماعت میں ’’داغدار‘‘ سمجھا جائے گا اور ایک دم کٹے جانور کی طرح سب کی توجہ کا مرکز بنایا جائے گا۔
احباب جماعت! اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ چندوں کی ادائیگی کے بارے میں جماعت کتنی تیز ہے اور کس طرح ایک منظم نیٹ ورک اس میں مصروف ہے۔ مگر کیا……
آپ نے کبھی مرکز سے زکوٰۃ کا انسپکٹر بھی آتے دیکھا ہے؟ کبھی آپ سے زکوٰۃ (جو ایک لازمی اسلامی مد ہے) وصول کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ کبھی آپ کے بقایا میں زکوٰۃ بھی شامل کی گئی ہے؟ کبھی ’’حضور‘‘ کی طرف سے زکوٰۃ پر لیکچر یا خطبہ سنا ہے؟ کبھی مرکزی سطح پر زکوٰۃ کی وصولی کی طرف توجہ دلانے کی کوئی کوشش آپ کے سامنے آئی ہو؟ یقینا نہیں۔ آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ اسلام کا بنیادی ستون نہ صرف چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ مذہب سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔ کیا اس ستون کے بغیرہ اسلام قائم رہ سکتا ہے؟ میری مراد ہے کیا قادیانیت کا اسلام سے واسطہ رہ سکتا ہے؟