کو کافر سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اس کا جواب گول مول کرتے کئی دن لگا دئیے اور ایک سو سوالوں کے بعد بھی ممبران کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے کہ مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کافر ہے یا نہیں۔ اپنے اس روّیہ سے انہوں نے ممبران کو سخت زچ کیا اور ان کو اپنے خلاف کرلیا۔ بجائے اس کے کہ ان کو قائل کرتے ان کو اپنے خلاف کرلیا۔ ان سوالوں کے عجیب و غریب جواب دینے پر نئی سے نئی اصطلاحیں اور کافر کی نئی نئی قسمیں سامنے آئیں جو ابھی تک قادیانیوں کو بھی معلوم نہیں۔ (اس پر بات کسی اور مضمون میں ہوگی)
مرزا ناصر احمد فرماتے ہیں کہ جو آدمی قادیانیت میں داخل ہوتا ہے یا بیعت کرتا ہے اس کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ یہ بھی سراسر خلاف واقعہ بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر نئے قادیانی کا بیعت فارم مکمل کوائف کے ساتھ مقامی امیر جماعت یا صدر جماعت کی تصدیق اور ریمارکس کے ساتھ مرکز میں جاتا ہے۔ اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہر جلسہ سالانہ کے دوسرے دن ’’حضور‘‘ اپنے خطاب میں جماعت کی کارگزاری سناتے وقت نگر پار کر، کنری سندھ کے علاقے میں ہندوئوں میں تبلیغ کے ثمرات کا ذکر کرتے وقت تعداد بتایا کرتے تھے۔ پورے پاکستان کی کل بیعتوں کا اس لیے ذکر نہ ہوتا تھا کہ اس کی تعداد بہت مایوس کن ہوتی تھی۔ جماعت ریکارڈ رکھنے میں بھی اپنا ایک ’’ریکارڈ‘‘ رکھتی ہے۔ بلکہ جب مرزا ناصر احمد خلیفہ بنے۔ تو تمام قادیانیوں نے ان کی نئے سرے سے بیعت کی (باقاعدہ بیعت فارموں پر) اور جب ۱۹۸۲ء میں مرزا طاہر احمد نے ’’اقتدار‘‘ سنبھالا تو پھر پوری جماعت نے باقاعدہ بیعت فارموں پر بیعت کی جس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔
جب مرزا طاہر احمد پاکستان سے خفیہ طور پر نکل کر انگلینڈ چلے گئے تو ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۲ء تک ہر سال ’’احباب جماعت‘‘ کو یہ خوشخبری سنایا کرتے تھے کہ اس سال بیعتوں کی تعداد پچھلے سال سے ڈبل ہے۔ نعرے لگ جایا کرتے تھے۔ مگر تعداد معلوم نہ ہوتی تھی۔ ۸۴ء سے ۹۲ء تک ڈبل کرتے کرتے ۱۹۹۳ء میں دو لاکھ بیعتوں کا اعلان کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے ۱۹۸۵ء کے قریب بیعتوں کی تعداد ایک ہزار سے کم تھی۔ اس لیے تو بتاتے نہیں تھے اور جب تعداد زیادہ ہوئی تو فخر سے بتانے لگے۔ بہرحال ریکارڈ نہ رکھنے والی بات بزرگانہ جھوٹ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ قومی اسمبلی کی کارروائی میں ایک اور دلچسپ صورتِ حال ملاحظہ فرمائیے۔
مرزا ناصر احمد: ’’الفضل‘‘ ہمارا اخبار نہیں۔ جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کا نہیں۔
اٹارنی جنرل: جماعت احمدیہ کا اخبار؟