مرزا ناصر احمد: جماعت کا بھی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی ایک تنظیم کا ہے۔
اٹارنی جنرل: ان کی آواز ہے۔ ان کی رائے دیتا ہے ان کی طرف نہیں؟
مرزا ناصر احمد: یہ خلیفہ کی آواز نہیں۔ ’’الفضل‘‘ جماعت کی آواز نہیں۔
اٹارنی جنرل: یہ تو بڑا اچھا ہے آپ ایسا کہہ دیں۔ ہم تو سارا جھگڑا ہی ’’الفضل‘‘ سے کر رہے تھے۔مرزا ناصر احمد: بالکل نہیں جماعت کا۔ پھر تو سارا جھگڑا ہی ختم ہوگیا۔
اٹارنی جنرل: کس جماعت کا ہے؟
مرزا ناصر احمد: کسی جماعت کا نہیں۔
اٹارنی جنرل: آپ کی جماعت کی آواز؟
مرزا ناصر احمد: وہ نہ جماعت۔ نہ میری آواز ہے۔ کچھ حصہ آواز کا نقل کرتا ہے میری آواز کیسے بن گیا؟
اٹارنی جنرل: آپ سوچ لیں کہ کل آپ کی جماعت کو یہ معلوم ہوا آپ نے یہ جواب دیا تو پھر ……… (تاریخی قومی دستاویز ۱۹۷۴ء ص ۱۶۶ تا ۱۶۸)
احباب قادیانی جماعت! ذرا غور فرمائیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ’’خلیفہ وقت‘‘ کیا فرما گئے ہیں کہ الفضل جماعت کا اخبار ہی نہیں۔ یہ انکشاف انہوں نے ۲۶ سال پہلے کیا۔ مگر ہمارے علم میں اب آ رہا ہے۔ حالانکہ جماعت کے سو فیصد ’’دیوانے‘‘ اسے جماعت کا اخبار ہی سمجھتے ہیں۔ جماعت کی طرف سے ’’خلیفہ وقت‘‘ کی بار بار ہدایت پر اس کے خریدار بنتے ہیں۔ حالانکہ اس اخبار میں خبریں نہیں ہوتیں۔ اس کا معیار کسی بھی لوکل اخبار سے کم یا برابر ہوگا۔ حالانکہ یہ انٹرنیشنل جماعت کا ترجمان اخبار ہے۔ اسے صرف قادیانی اپنے سربراہ کی ہدایت۔ جماعت کی بار بار کی تحریک اور عقیدت کی بنیاد پر خریدتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا طاہر احمد نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں تحریک کی تھی کہ الفضل کی اشاعت دس ہزار کرنی ہے۔ لہٰذا جماعت اس طرف توجہ دے۔ اور پھر محمود آباد جہلم میں جہاں پہلے ایک یا دو اخبارات آتی تھیں وہاں ۱۵ کے قریب آنے لگیں۔ بہرحال اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ یہ قادیانی جماعت کا اخبار ہے۔ سو فیصد قادیانی اسے جماعت کا اخبار سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ پھر مرزا ناصر کے بیان کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے یہ ’’بزرگانہ جھوٹ‘‘ ہی تو ہے۔