اور دیگر بہت سے کوائف درج کرکے مرکز (چناب نگر، ربوہ) میں بھیجے جاتے ہیں۔ ہر سال تجنید کی تیاری میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ جو جماعتی یونٹ۔ یہ تجنید نہ بھیجے اسے ریمائنڈر بھیجے جاتے ہیں اور مجلس عاملہ کے اجلاس میں سرزنش کی جاتی ہے اور پابند کیا جاتا ہے کہ جلد از جلد بھیجے۔ اس طرح ایک سال کے اندر نئے بچے بھی درج ہوتے ہیں۔ اور اس حلقہ میں کسی دوسرے شہر سے آنے والے نئے افراد اور اس حلقہ سے جانے والے قادیانی افراد کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ اس طرح پورے ملک کے ہر قادیانی بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور عورت کے مکمل کوائف ہر سال کے آخری دو ماہ میں مکمل کیے جاتے ہیں۔ اور یوں پورے ملک کے کل قادیانی مرد و زن کی تعداد بمعہ کوائف محفوظ ہو جاتی ہے۔ جبکہ قادیانی جماعت کے سربراہ جسے قادیانی خلیفہ وقت پکارتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم ریکارڈ نہیں رکھتے۔
قادیانی احباب جماعت ذرا غور فرمائیں کہ آپ کے سربراہ کیا فرما رہے ہیں؟ اگر ریکارڈ نہیں رکھتے تو تجنید کیا ہے؟ یقینا آپ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ’’خلیفہ وقت‘‘ جھوٹ بول سکتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں۔ یا ’’راہ پیا‘‘ جانے یا ’’واہ پیا‘‘ جانے۔ جب تک آپ کو ’’راہ‘‘ یا ’’واہ‘‘ نہیں پڑتا آپ یہی سمجھیں گے۔ اسی صورت میں ایک قادیانی دل کو کیسے تسلی دے گا۔ وہ میں بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے اس جماعت میں چالیس سال گزارے میں۔ اور ’’خلیفہ وقت‘‘ کو ہر ’’مخلص قادیانی‘‘ کی طرح خدا سے زیادہ عزیز اور قریب جاتا ہے۔ اس وقت میرا بھی ایک قادیانی کی طرح یہ ایمان تھا کہ اگر کوئی مشکل یا پریشانی ہو تو ’’حضور‘‘ کو خط لکھنا ہے۔ جب خط لکھ کر پوسٹ کر دیا تو سمجھ لیا کہ اب مشکل ختم ہوگئی۔ بلکہ صرف خط لکھنے کا ارادہ کرنے پر ہی ’’معجزات‘‘ کے وقوع پذیر ہونے پر ’’بالاتفاق‘‘ یقین تھا۔
درج بالاصورت میں ایک مخلص قادیانی سوچے گا کہ حضور پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ایسا کہا ہوگا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ریکارڈ تو رکھا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ فرار کا راستہ صرف یہی ہے کہ حضور نے ایسا کہا ہی نہیں ہوگا۔ اب آپ لاکھ دلائل دیں۔ ان کی ریکارڈ شدہ آواز بھی سنا دیں تو وہ کہیں گے کہ یہ ان کی آواز ہی نہیں۔ آپ قومی اسمبلی کے تمام ممبران کے تصدیقی دستخطوں سے یہ ثابت کریں کہ انہوں نے یہ کہا تھا۔ تو قادیانی کہہ دیں گے کہ یہ سب مخالف تھے اس لیے الزام لگا رہے ہیں۔
’’میں نہ مانوں‘‘ کا بہترین نظارہ اس کارروائی (قومی اسمبلی کی مذکورہ کارروائی) کو پڑھ کر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً مرزا ناصر احمد نے اس سوال پر کہ آپ مرزا غلام احمد کے نہ ماننے والوں