میں بحث ہوتی رہی۔ جماعت کو اپنا مکمل موقف بیان کرنے کا موقع ملا۔ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ مرزا طاہر احمد (موجودہ سربراہ) اور دوست محمد شاہد بھی تھے۔ باقی دو افراد اب فوت ہوچکے ہیں۔ کل پانچ افراد پر مشتمل وفد ۱۱ دن تک جماعت کا موقف بیان کرتا رہا۔ اسمبلی کی کارروائی ۳۰سال کے لیے پابندی کے نیچے آگئی۔ ۲۰سال بعد اسے ایک کارنر سے (بالواسطہ) شائع کیا گیا ہے چند اقتباسات حاضر ہیں۔
قادیانی جماعت کی تعداد کے بارے میں اٹارنی جنرل استفسار کرتے ہیں۔
’’اٹارنی جنرل: آپ کی تعداد کتنی ہے؟
مرزا ناصر: ہم ریکارڈ نہیں رکھتے۔
اٹارنی جنرل: آپ کی تبلیغ کا کام پاکستان یا انڈیا میں ہے یا باہر بھی؟
مرزا ناصر: ہم ہر جگہ پیار و محبت کا پیغام دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل: باہر آپ کے پیار و محبت کو جس نے قبول کیا وہ کتنے ہیں؟
مرزا ناصر: تعداد کا ریکارڈ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل: جو شامل ہو اسے کوئی فارم دیتے ہیں؟
مرزا ناصر: جی بیعت فارم۔
اٹارنی جنرل: ان کی تعداد؟مرزا ناصر: ریکارڈ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل: پچھلے بیس سالوں میں کتنے احمدی ہوئے؟
مرزا ناصر: ریکارڈ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل: جو آپ کا ممبر بنے اس کا ریکارڈ؟
مرزا ناصر: نہیں رکھتے ریکارڈ۔
اٹارنی جنرل: کوئی رجسٹر بھی؟
مرزا ناصر: میرے علم میں نہیں ہے۔ بیعت فارم کو شمار کرتے ہیں؟ یہ بھی میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘ (تاریخی قومی دستاویز ص۲۱)
قارئین غور فرمائیں! قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد صاحب فرما رہے ہیں کہ ہم تعداد کا ریکارڈ نہیں رکھتے حالانکہ یہ سراسر خلاف حقیقت بات ہے۔ کیونکہ ہر سال بلاناغہ جماعت کی ہر ذیلی تنظیم کی ’’تجنید‘‘ تیار کی جاتی ہے جس میں ہر رکن کا نام، عمر، ولدیت، تعلیم، پیشہ