بھی جائزہو۔ (الف)متعدد لفظوں کے درمیان جب سکتے کی علامت (،) لگی ہو، تو جملے کے آخری جزو سے پہلے وقفے کی علامت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے: دہلی، بمبئی، کلکتہ، مدراس؛ یہ سبھی ہندوستان کے بڑے شہر ہیں ۔ (ب) اگر جملہ کے مختلف اجزا پر زیادہ زور دینا ہو،تو وہاں بھی وقفہ استعمال کرتے ہیں ، جیسے: جوجاگے گا ، سوپائے گا؛ جو سوئے گا، وہ کھوئے گا۔ (ج) جب جملوں کے درمیان ایسے دوحصوں کو ایک دوسرے سے علاحدہ کرناہو جن میں اندرونی طورپر سکتہ موجود ہو، تو ان کے درمیان وقفے کی علامت استعمال ہوتی ہے، جیسے: گنگا، جمنا، گھاگھرا اور گومتی شمالی ہند کی؛ مہاندی، گوداوری، کرشنا اور کاویری؛ جنوبی ہند کی بڑی ندیاں ہیں ۔
{۳} ختمہ(۔) اردو کے لیے= (۔)عربی اور انگریزی کے لیے: اس علامت کا استعمال جملے کے مکمل ہونے کے وقت کیاجاتاہے، جہاں قاری کے لیے بھرپور ٹھہراؤ کی گنجائش ہو،جیسے: کسی کمال کے حصول کے لیے پیہم محنت ضروری ہے۔انسان اسی وقت ترقی کرتاہے،جب وہ آرام وراحت کو تج دیتاہے۔
{۴} رابطہ (:): اس علامت کا استعمال کسی کے قول یا کہاوت کی نقل، نیز جملے کی تفصیل سے پہلے یا مفصل کے اجمال سے پہلے ہوا کرتاہے، جیسے: بزرگوں کا قول ہے: ’’صبح کا بھولا شام کو گھر آئے، تو بھولا نہیں کہتے‘‘۔
{۵}سوالیہ نشان (؟): یہ علامت سوالیہ جملوں کے اخیر میں لگائی جاتی ہے۔ جیسے: کیاآپ حج کو جارہے ہیں ؟ کیا کل مدرسے میں چھٹی ہے؟۔
{۶} ندائیہ - فجائیہ (!): (الف) یہ علامت، منادی- یعنی جس کو پکارا جائے- کے بعد لگائی جاتی ہے۔ جیسے: حضرات!، سامعینِ باتمکین!، دوستو!، پیارے بچو!، لوگو!۔ (ب) ان الفاظ اور جملوں کے بعد بھی استعمال کرتے ہیں ، جن سے کسی جذبے کا اظہار مقصود ہوتاہے، جیسے: ناراضگی، حقارت، استعجاب، خوف یانفرت وغیرہ۔ اس صورت میں اس علامت کو ’’فجائیہ‘‘ کہاجاتاہے، جیسے: مَیں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں !، سبحان اﷲ! ، بہت خوب!، معاذاﷲ!، اُفوہ!، وہ اور رحم! اس کی امید فضول ہے۔
{۷} خط (-):(الف) اس علامت کا استعمال جملہ معترضہ کے شروع اور آخر میں کیا جاتاہے، جیسے: میری رائے ہے- اگرچہ میں کیا اور میری رائے کیا!- کہ آپ اس سلسلے میں جلدی نہ کریں ۔ (ب) جب کئی لفظ کسی سابقہ لفظ کی تشریح میں لکھے جائیں ، تو وہاں بھی یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: سارا شہر- درخت، مکانات، سڑکیں - کہرے کی لپیٹ میں آگیاتھا۔
{۸} واوین (’’ ‘‘): (الف) کسی کتاب اور تحریر کا کوئی اقتباس نقل کرناہو یا کسی کا قول اسی کی زبان میں لکھناہو، تو اس کے شروع اور آخر میں واوین لگاتے ہیں ۔ جیسے: خواجہ الطاف حسین حالی میر تقی میرؔ