Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

208 - 214
بھی جائزہو۔ (الف)متعدد لفظوں کے درمیان جب سکتے کی علامت (،) لگی ہو، تو جملے کے آخری جزو سے پہلے وقفے کی علامت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے: دہلی، بمبئی، کلکتہ، مدراس؛ یہ سبھی ہندوستان کے بڑے شہر ہیں ۔ (ب) اگر جملہ کے مختلف اجزا پر زیادہ زور دینا ہو،تو وہاں بھی وقفہ استعمال کرتے ہیں ، جیسے: جوجاگے گا ، سوپائے گا؛ جو سوئے گا، وہ کھوئے گا۔ (ج) جب جملوں کے درمیان ایسے دوحصوں کو ایک دوسرے سے علاحدہ کرناہو جن میں اندرونی طورپر سکتہ موجود ہو، تو ان کے درمیان وقفے کی علامت استعمال ہوتی ہے، جیسے: گنگا، جمنا، گھاگھرا اور گومتی شمالی ہند کی؛ مہاندی، گوداوری، کرشنا اور کاویری؛ جنوبی ہند کی بڑی ندیاں ہیں ۔
	{۳} ختمہ(۔) اردو کے لیے= (۔)عربی اور انگریزی کے لیے: اس علامت کا استعمال جملے کے مکمل ہونے کے وقت کیاجاتاہے، جہاں قاری کے لیے بھرپور ٹھہراؤ کی گنجائش ہو،جیسے: کسی کمال کے حصول کے لیے پیہم محنت ضروری ہے۔انسان اسی وقت ترقی کرتاہے،جب وہ آرام وراحت کو تج دیتاہے۔
	{۴} رابطہ (:): اس علامت کا استعمال کسی کے قول یا کہاوت کی نقل، نیز جملے کی تفصیل سے پہلے یا مفصل کے اجمال سے پہلے ہوا کرتاہے، جیسے: بزرگوں کا قول ہے: ’’صبح کا بھولا شام کو گھر آئے، تو بھولا نہیں کہتے‘‘۔
	{۵}سوالیہ نشان (؟): یہ علامت سوالیہ جملوں کے اخیر میں لگائی جاتی ہے۔ جیسے: کیاآپ حج کو جارہے ہیں ؟ کیا کل مدرسے میں چھٹی ہے؟۔
	{۶} ندائیہ - فجائیہ (!): (الف) یہ علامت، منادی- یعنی جس کو پکارا جائے- کے بعد لگائی جاتی ہے۔ جیسے: حضرات!، سامعینِ باتمکین!، دوستو!، پیارے بچو!، لوگو!۔ (ب) ان الفاظ اور جملوں کے بعد بھی استعمال کرتے ہیں ، جن سے کسی جذبے کا اظہار مقصود ہوتاہے، جیسے: ناراضگی، حقارت، استعجاب، خوف یانفرت وغیرہ۔ اس صورت میں اس علامت کو ’’فجائیہ‘‘ کہاجاتاہے، جیسے: مَیں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں !، سبحان اﷲ! ، بہت خوب!، معاذاﷲ!، اُفوہ!، وہ اور رحم! اس کی امید فضول ہے۔
	{۷} خط (-):(الف) اس علامت کا استعمال جملہ معترضہ کے شروع اور آخر میں کیا جاتاہے، جیسے: میری رائے ہے- اگرچہ میں کیا اور میری رائے کیا!- کہ آپ اس سلسلے میں جلدی نہ کریں ۔ (ب) جب کئی لفظ کسی سابقہ لفظ کی تشریح میں لکھے جائیں ، تو وہاں بھی یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: سارا شہر- درخت، مکانات، سڑکیں - کہرے کی لپیٹ میں آگیاتھا۔
	{۸} واوین (’’  ‘‘): (الف) کسی کتاب اور تحریر کا کوئی اقتباس نقل کرناہو یا کسی کا قول اسی کی زبان میں لکھناہو، تو اس کے شروع اور آخر میں واوین لگاتے ہیں ۔ جیسے: خواجہ الطاف حسین حالی میر تقی میرؔ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter