صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ، هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ»“۔(بخاری:2992)
ترجمہ:حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺکے ساتھ(ایک سفرمیں)تھے،پس جب ہم کسی وادی کے قریب پہنچے تو ہم نے بلند آواز میں تہلیل اور تکبیر کہنی شروع کردی،نبی کریمﷺنے یہ سن کر اِرشاد فرمایا:اے لوگو! اپنی جانوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو ،کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب ذات کو نہیں پکارتے ہو، بیشک وہ تمہارے ساتھ ہے،بیشک وہ سننے والا اور بہت قریب ہے،اُس کا نام بہت ہی بابرکت اور اُس کی شان بہت بلند و بالا ہے ۔
وضاحت:آمین بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اُس کا ذکر کرنے ہی کی ایک صورت ہے ،اِس میں بھی اِس ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیئے تاکہ کسی قسم کی بےادبی اور کوتاہی کا معاملہ پیش نہ آئے ۔
(2)”عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا قَالَ الإِمَامُ: {غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} فَقُولُوا:آمِينَ“۔(بخاری:782)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:جب اِمام ”غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ“کہے تو تم آمین کہا کرو۔
وضاحت:مذکورہ حدیث سے اِمام کا آہستہ آواز میں آمین کہنا ثابت ہوتا ہے اِس لئے کہ اس حدیث میں مقتدی کیلئے آمین کہنے کا وقت یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب اِمام