کتنی سخت بات اِرشاد فرمائی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
”فَالْمَقْصُودُ بِالْجَهْرِ اسْتِمَاعُ الْمَأْمُومِينَ، وَلِهَذَا يُؤَمِّنُونَ عَلَى قِرَاءَةِ الْإِمَامِ فِي الْجَهْرِ دُونَ السِّرِّ، فَإِذَا كَانُوا مَشْغُولِينَ عَنْهُ بِالْقِرَاءَةِ فَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَقْرَأَ عَلَى قَوْمٍ لَا يَسْتَمِعُونَ لِقِرَاءَتِهِ، وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ أَنْ يُحَدِّثَ مَنْ لَمْ يَسْتَمِعْ لِحَدِيثِهِ، وَيَخْطُبَ مَنْ لَمْ يَسْتَمِعْ لِخُطْبَتِهِ، وَهَذَا سَفَهٌ تُنَزَّهُ عَنْهُ الشَّرِيعَةُ.وَلِهَذَا رُوِيَ فِي الْحَدِيثِ:«مَثَلُ الَّذِي يَتَكَلَّمُ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا» فَهَكَذَا إذَا كَانَ يَقْرَأُ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ عَلَيْهِ“اِمام کے بلند آواز سے پڑھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ پڑھے اور مقتدی غور سے سنیں،یہی وجہ ہے کہ اِمام کے جہری نمازوں میں(سورۃ الفاتحہ کی)قراءت کرنے پر مقتدی آمین کہتے ہیں اور سرّی نمازوں میں نہیں کہتے(کیونکہ وہ اِمام کے پڑھنے کو سنتے نہیں)۔پس اگر مقتدی (اِمام کے پیچھے)قراءت کرنے میں مشغول ہوجائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اِمام کو یہ حکم دیا جارہا ہےکہ وہ ایسے لوگوں کو سنائے جو اس کی قراءت کو سننے کیلئے آمادہ ہی نہیں ہیں اوریہ ایسا ہے کہ جیسے کسی ایسی قوم کے سامنے بیان کرو جو اس کی بات ہی نہ سنیں اور ایسے لوگوں کے سامنے خطبہ دو جو اُس کے خطبہ کی جانب توجہ ہی نہ دیں اور یہ ایسی کھلی حماقت ہے جس سے شریعت مطہرہ کا دَامن بالکل پاک ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہےکہ جو شخص اِمام کے خطبہ کے وقت باتیں کررہا ہو تو اُس کی مثال ایسی ہےجیسے گدھے پر پر کتابوں کا بوجھ لادا گیا ہو۔بالکل اِسی طرح وہ شخص ہے جوجہری نمازوں میں اِمام کے پیچھے قراءت کرتا ہو ۔(فتاویٰ کبریٰ لابن تیمیہ:2/294)