مسلمان کو صرف اس کی سوچ اور عقائد کی بناء پر کافر قرار دے دے۔ یہ تو تھا اسلامی فرمان، اب ایک انسانی فرمان بھی سن لیں کہ ’’دنیا کے کسی بھی مذہب سے کہیں زیادہ انسانی جان قیمتی ہے۔‘‘ وما الینا الا البلاغ (نقل مطابق اصل۔ ناقل!)‘‘
جواب… جی ہاں! ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور اسلام نے ہی اس کی تعلیم دی ہے اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے۔ قرآن کریم نے اس پر سخت وعید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر اور ناحق قتل کرے۔ اسے ہمیشہ… یعنی طویل عرصے… کے لئے جہنم میں جلنا ہوگا۔‘‘ رہی یہ بات کہ کسی کو اس کی سوچ اور عقائد کی بناء پر کافر قرار دینے کا کسی کو حق نہیں تو قادیانیوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی مخالفت کرنے والوں کو کافر، پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کیوں قرار دیا؟ اسی طرح خود مرزاقادیانی نے اپنے مخالفین کوجنگل کے سور اور ان کی بیویوں کو کنجریوں کا خطاب کیوںدیا؟ اسی طرح اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی کے ’’اعزاز‘‘ سے کیوں سرفراز فرمایا؟ اگر مرزائیوں کے مخالف مسلمان، سوچ اور عقائد کے اختلاف کی بناء پر کافر، مرتد، جہنمی اور جنگل کے سور ہیں تو خود مرزائی پوری امت مسلمہ کی سوچ، چودہ صدیوں کے مسلمانوں اور کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام سے اختلاف کرنے اور ان کی توہین وتنقیص کرنے کی وجہ سے کیونکر کافر نہیں ہوں گے؟
دیکھا جائے تو سائل کا یہ پورا سوال ہی اس کے دجل، تلبیس، دوغلاپن، نفاق اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ اگر سائل کا اپنے اس قول پر اعتقاد ہوتا تو وہ سب سے پہلے اپنے آقاؤں کو اس کی تلقین کرتا، جو فلسطین، بیروت، لبنان، افغانستان، عراق اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے بے جاقتل عام کے مرتکب ہیں۔ اگر قادیانی اپنے اس مؤقف میں سچے ہوتے تو بلاشبہ آج وہ دنیائے عیسائیت کی تائید وحمایت کی بجائے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہوتے۔ مگر اخبارات ومیڈیا اس پر شاہد ہیں کہ قادیانی، عیسائیت، یورپ اور امریکا کی اس دہشت گردی پر نہ صرف خاموش ہیں۔ بلکہ درپردہ وہ ان کی حمایت وتائید میں کوشاں ہیں۔
’’واﷲ یقول الحق وھو یہدی السبیل‘‘
(ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی، شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ)