دوراندیشی پیدا ہوگی اور وہ خداتعالیٰ کی ناپسندیدہ ترین مباح یعنی طلاق دینے سے باز رہے گا۔ اسی طرح جب عورت کو اس عدم رجوع کی واقفیت ہوگی تو اس کے اخلاق بھی درست رہیں گے اور اس سے ان کی آپس میں اصلاح ہو سکے گی اور اس نکاح ثانی کے متعلق نبی علیہ السلام نے اس طرح تاکید فرمائی کہ وہ نکاح ہمیشہ کے لئے ہو۔ پس اگر دوسرا شخص اس عورت سے اپنے پاس ہمیشہ رکھنے کے ارادہ سے نکاح نہ کرے۔ بلکہ خاص حلالہ ہی کے لئے کرے تو آنحضرتﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے اور جب پہلا شخص اس قسم کے حلالہ کے لئے کسی کو رضامند کرے تو اس پر بھی لعنت فرمائی ہے۔
تو شرعی حلالہ وہ ہے کہ جس میں خود ایسے اسباب پیدا ہو جائیں کہ جس طرح پہلے خاوند نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی۔ اسی طرح دوسرا بھی طلاق دے یا مر جائے تو عورت کا عدت کے بعد پہلے خاوند کی طرف بلاکراہت رجوع درست ہے۔
پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع کے جواز کی وجہ مذکورہ بالا تفصیلات سے ظاہر وباہر ہے کہ اس میں عورت اور نکاح کی عزت وعظمت اور نعمت الٰہی کے شکر، نکاح کے دوام اور اس تعلق کے نہ ٹوٹنے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ جب خاوند کو عورت کی جدائی سے اس کے دوبارہ ملاپ کے درمیان اتنی ساری رکاوٹیں حائل ہوتی محسوس ہوں گی تو وہ تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔‘‘
(بحوالہ احکام اسلام عقل کی نظر میں از حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ)
رہی یہ بات کہ اس سلسلے میں عورت ہی کو ان تمام مراحل سے کیوں گزار گیا؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ شوہر ثانی سے نکاح کی شرط میں شوہر اوّل کو اس مفارقت وجدائی کا مزہ چکھانا مقصود ہے اور یہ بتلانا مقصود ہے کہ بلاکسی ضرورت مصلحت اور سوچے سمجھے طلاق دینے اور اپنے نفس کی خواہش سے مغلوب ہو کر اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کا یہ عذاب ہے۔ کیونکہ کوئی باغیرت مرد اس قدر اپنی تذلیل کو برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کے کسی غلط عمل کی وجہ سے اس کی بیوی دوسرے مرد سے نکاح کرے۔ اس کے بستر کی زینت بنے اور پھر وہ دوبارہ اس کے نکاح میں آئے۔
دیکھا جائے تو اس میں بھی اس خاتون کی عزت وتکریم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ طلاق دہندہ مرد کو باور کرایا جارہا ہے کہ جس کو تم نے بے قدر سمجھا تھا۔ وہ ایسی بے قدر نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کر کے باعزت زندگی گزار سکتی ہے۔ لیکن جب دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے دے یا وہ مر جائے اور پھر پہلا شوہر اس سے نکاح کی رغبت