آپ کی بیٹی نے میرے ذمہ لگایا ہے کہ میں اس کے حقوق کی حفاظت کروں۔اس سلسلے میں آپ کی بیٹی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ اس کو لمبے لمبے خطوط لکھتے ہیں اوراکثرٹیلی فون کرتے ہیں۔اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے عقیدہ کوچھوڑ دے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل آپ نے خود کیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ اس کو دھمکا رہے ہیں کہ آپ اس کے خاوند ،دوسرے رشتہ داروں اورجاننے والوں کو جو یہاں ہیں اورپاکستان میں بھی ہیں،ایسے خطوط لکھیں گے جس میں اس بارے میں بری باتیں اورجھوٹی کہانیاں ہوں گی۔حتیٰ کہ اپنے آخری خط میں یہاں تک لکھا ہے کہ یہ ایک نیک کام ہوگا اگر اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تو۔
میری مؤکلہ ایسی صورتحال زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔آپ کی بیٹی ایک بالغ عورت ہے جس کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں خود فیصلہ کرے۔ میں اپنی مؤکلہ کے نام اوراس کے دیئے ہوئے اختیار کے تحت آپ کوخبردار کرتا ہوں کہ آپ فوری طور پر میری مؤکلہ نیز اس کے شوہر کو خط لکھنا اورٹیلی فون سے کسی بھی قسم کا رابطہ ختم کردیں،نیز میری موکلہ کے بارے میں اس کے دوستوں اورجاننے والوں میں غلط کہانیاں پھیلانے سے باز آجائیں۔
اگر میری مؤکلہ کو اب آپ کی طرف سے کوئی خط ملایا ٹیلی فون کیاتو مت بھولیں کہ آپ کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جائے گی۔
دوستانہ سلام کے ساتھ …دستخط مارٹے لوک ،وکیل…منسلک نقل مختار نامہ منوراحمد
سید منیر احمد کا اس خط پر تبصرہ
میں ایک قانون پسند شہری ہوں اورقانون کا احترام کرتاہوں،میں اپنی بیٹی کی خواہش پر اس سے ہر قسم کا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم کرچکاہوں۔باقی جب اولاد والدین کے لئے اپنے عمل سے مسائل پیدا کرے توبعض اوقات والدین کے سامنے وہ بچہ نہ ہوتو وہ خط یا ٹیلی فون کے ذریعہ اپنے دکھ کااظہار کرتے ہیں ۔اورہوسکتا ہے کہ میں نے دکھ میں کوئی سخت بات لکھ دی ہو جو مجھے نہیں یاد یا یہ لکھ دیا ہو کہ اس سے بہتر تھا کہ تم مرجاتیں۔ بہرحال جس طرح میں اپنی بیٹی کو جانتا ہوں وہ خود سے ایسا قدم اٹھانے والی نہیں اورمجھے جماعت میں اپنے تجربات کے بعد یہ یقین ہے کہ میری بیٹی نے باوجود مذہبی اختلاف کے یہ قدم نہیں اٹھایا بلکہ جماعت کے مجبور کرنے پر وکیل کے ذریعہ یہ خط لکھوایا ہے۔میں صرف اتنا کہوں گا کہ اﷲان سب کو ہدایت دے،آمین!