٭… ’’مجھے اس خداتعالیٰ کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اورمعارف سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیاگیا ہے۔‘‘ (سراج منیر ص۳۹،خزائن ج۱۲ص۴۱)
٭… مجھے خدا تعالیٰ نے الہام سے مشرف فرمایا کہ الرحمٰن علم القرآن کہ خدانے تجھے قرآن سکھایا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۳۸،خزائن ج۱ص۲۶۵حاشیہ)
ان تمام تحروں کو پیش نظررکھتے ہوئے ہمارے سامنے مجموعی صورت حال یہ بنتی ہے کہ: ’’مرزا قادیانی کے مطابق خدا نے قرآن کی عظمت ومعارف کے بیان اوروید کی الٰہی دشمنی کے لئے ایک ماہوار رسالہ’’قرآنی طاقتوں کی جلوہ گاہ‘‘ کے اجراء کا نہ صرف موقعہ دیا بلکہ وحی اور روح کے اندر تک اتر جانے والاحکم بھی دیااوراس کے لئے اس سے قبل مرزاقادیانی کو یہاں تک قابلیت بھی دی کہ ہرروح گزشتہ،(اس کا مطلب ہے کہ جس میں محمدﷺبھی شامل ہوسکتے ہیں)موجودہ اورآئندہ آنے والی روحیں ،ان سب سے زیادہ اللہ نے مرزاقادیانی کو قرآن کریم کے حقائق اورمعارف سکھا کر اس کام کیلئے ایک مکمل شخصیت کے طور پربھی تیارکیاتھا اورمرزاقادیانی نے خدا کے حکم کے تحت آریوں کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ان کو میدان سے نہ بھاگنے کاکہہ کر ان کی غیرت کو بھی جھنجھوڑا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ:
٭… اتنی تحدی کے ساتھ مرزاقادیانی کے (خدا کی طرف سے )اعلان کے باوجود ماہوار تو دور کی بات،کیا ایک بھی رسالہ ’’قرآنی طاقتوں کی جلوہ گاہ‘‘ کے نام سے،جون ۱۸۸۷ء سے لے کر مرزاقادیانی کی وفات تک نکلا؟اگر نکلا ہے تو قادیانی (احمدی) جماعت لاہوری، ربوی ، کوئی بھی گروپ پیش کرے،انعام پائے!
٭… اگر یہ ماہوار رسالہ نہیںنکلاتو’’قرآنی طاقتوں کی جلوہ گاہ‘‘ توکیا خدائی وحی یا خدائی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی؟ کیا یہ رسالہ شائع نہ کرکے خدا کے منشاء کو رد نہیں کیا؟جو صحیح وقت تھا قرآن کی طرح اپنے کو دکھانے کا،اورہر ذی روح سے بڑھ کر قرآن کے معارف اور مطالب بیان کرنے کا ،جس کے لئے بقول مرزا کوخدا نے قرآن سکھا کر تیارکیاتھا۔اس موقعہ کومرزا قادیانی نے ضائع کیا یا نہیں؟
٭… کیاآریہ سچے ہوئے یا نہیں،جنہوں نے کہا تھا کہ مرزا قادیانی اس علمی کام کے قابل نہیں۔اوراگر شرماشرمی کرے گا بھی تواس سے نہیں ہوگا؟اور دیکھ لیں کہ مرزاقادیانی نے شرما شرمی سے چیلنج کر دیا اورآریوں کو نہ بھاگنے کا کہہ کر خود انتہائی بے شرمی سے میدان سے بھاگ