پرلرزہ شروع ہوجاتاہے اورپھر تو وہ حالت ہوجاتی ہے کہ جس قدرکسی مسلمان پر تہمت بہتان الزام لگانا چاہیں یا جو کچھ افتراء پردازوں کی طرف سے اشتہار وغیرہ کے چھپوانے کی تجویز ہوجھٹ پٹ دستخط کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔اسی ترکیب سے آج کل…اشتہارات جاری کر رہے ہیں۔‘‘ (شحنہ حق ص۳۹،خزائن ج۲ص۳۷۷) میرے قادیانی /احمدی دوستو! اوپر کی تحریر میں خالی چھوڑی ہوئی جگہ پر احمدی ،قادیانی لکھ لو اورپھر دل ودماغ کی آنکھیں کھول کر دیکھو کہ کیا یہ تحریر آپ لوگوں کی موجودہ حالت کی سو فیصدی عکاسی نہیں کرتی؟ اپنا جواب تم ہمیں نہ بتائو۔لیکن قسم کھا کر ہمارے نیچے دیئے ہوئے سوالوں کا اپنے ضمیر کو ضرور جواب دو۔
٭… کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک طرف تو یہ تمہارے دماغ میں ڈالتے ہیں کہ تم مسلمان ہو ۔ لیکن ساتھ ہی یہ کھڑپینچ باقی اربوں مسلمانوں کوکافر بتاتے ہیں اورتمہیں یہ فیصلہ دل سے منظور ہو یا نہ ہو،پرقبول کرنا اوراس پراپنے عمل سے دستخط کرنا ہی پڑتاہے؟
٭… کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک آدمی ساری عمرشرافت سے تم لوگوں میں بسر کرتا ہے جہاں یہ کھڑپینچ اس سے بگڑے،ایک لمحہ میں اس کی صحبت بری قرار دے دی جاتی ہے او رآپ پرلازم ہے کہ جس کو نظام اورکھڑپینچوں نے براقرار دے دیا اس سے پرہیز کریں ۔پرہیز نہ کریں گے تو عین ممکن ہے کہ آپ کی صحبت بھی بری قرار دی جائے گی۔
٭… کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہی شخص اپنی عزت نفس کو ختم کرکے ذلت کو قبول کرتے ہوئے ان کھڑپینچوں کے آگے جھک جائے،اوران کا شاہانہ مزاج اپنی اناکی تسکین پاتامحسوس کرے تو چند ہی دنوںمیں خلیفہ کے دستخطوں سے اس کی صحبت پھر نیک ہوجاتی ہے؟یعنی آپ کی جماعت میں شرافت بھی سرٹیفکیٹ کی محتاج ہے؟
٭… کیایہ حقیقت نہیں کہ جماعت سے اخراج کیلئے ضروری نہیں کہ آدمی غلط کرداررکھتا ہے، یا تہجد گزار ہے،صرف ایک شرط ہے اخراج سے بچنے کی کہ ’’نظام‘‘ اورکھڑپینچ آپ سے مطمئن رہیں،خوش ہوں؟دوسری صورت میں اس جماعت میں آپ کے لئے کوئی امن اورعزت نہیں؟
٭… کیا یہ حقیقت نہیں کہ پیدائش سے لے کر اب تک، اپنی ضرورتیں ختم کرکے،تنگ ہوکر، بیوی بچوں اوردوسرے اہل خانہ کے منہ سے نوالے چھین کر، ان کے تن سے کپڑے نوچ کر ماںباپ، بہن بھائیوں کے حقوق سے آنکھیں بند کر کے چندے دیتے آرہے ہو اوردوسرے کئی بہانوں سے ان کی تقریبات کے خرچ اٹھا رہے ہو۔ان کی فرمائشیں ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔