ملک میں خسارے کاسوداثابت ہوئی ہے۔
۱… مرزامسرور صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوںنے ستمبر ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں انہوں نے کیا کیا اورکہا،تفصیلی موضوع ہے ۔ہم ایک دوباتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مرزامسرور صاحب نے پریس کے نمائندہ کو کہا کہ :’’ہم عیسائیت کی تعلیم کے مطابق اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تودوسراگال بھی پیش کردو۔اپنا دوسراگال بھی پیش کرنے آئے ہیں۔‘‘ مرزامسرور صاحب اس پرمیرے سوال ہیں ۔(۱) آپ خود کو اسلام کااصلی نمائندہ کہتے ہیں اورآپ کی عملی پوزیشن یہ ہے کہ آپ کو پوری اسلامی تعلیم میں ایک بھی ایسا قول نہ ملا جس سے آپ اسلام کی متوازن وامن پسندی کی تعلیم ظاہر کر سکتے ۔ ملاتوصلیبی مذہب سے جس کے بارے میں آپ کے پڑدادا اوربانی جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ :’’اس مذہب کی بنیاد محض ایک لعنتی لکڑی پر ہے جس کو دیمک کھا چکی ہے۔‘‘ (بحوالہ ملفوظات ج۸ ص۱۳۷) (۲) دوسرے آپ کی جماعت کے گالوں پر ڈنمارک میں کون سے تھپڑ پڑ رہے تھے کہ آپ کو دوسرا گال پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟ آپ توالٹا وہاں مسلمانوں کے حقوق پر بھی قبضہ جمائے ہوئے ہیں اورآپ کی اس سے قبل ایسے کوئی بیان نہیں کہ جس سے ظاہرہوکہ ڈنمارک میں آپ کی جماعت کو کوئی تکلیف ہو؟(۳) آپ نے بانی جماعت احمدیہ کی متابعت میں یہ کیوںنہ کہا کہ اے بدبودار مذہب والو ہم (پاک صاف )لوگ اپنا دوسراگال بھی پیش کرتے ہیں؟ کیونکہ اگر آپ پردادا کے سچے جانشین ہیں اورحق بات بیان کرتے ہیں تویہاں آپ نے منافقت سے کام لیا یا اپنے دادا کا قول بھول گئے۔ آپ کے پردادا فرماتے ہیں:’’عیسائیت ایک بدبودارمذہب ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۲۱ج۱۸ص۲۴۱)
۲… مرزامسرور یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ریسیپشن میں وزیر سے ملاقات ہوئی تھی۔ اورہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایسی ریسیپشن دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال ہواورخوشگوار ماحول میں، ہلکے پھلکے انداز میں ایک دوسرے کو اپنا موقف واضح کر دیا جائے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے موقع سے مرزامسرور فائدہ نہ اٹھائیں اوراپنی جماعت کو دوسرے مسلمانوں سے بہترثابت کرنے کے لئے اپنا پردادا کی نبوت کا نہ بتائیں اوراپنی جماعت کی امن پسندی ظاہر کرنے کے لئے اپنی (خودساختہ) نبوت کے بل پر جہاد کی منسوخی کا جو اعلان کیا ہے اس کے متعلق نہ بتائیں؟ لیکن کیا اس کے ساتھ انہوںنے ان حکام اوروزیر کو یہ نہیں بتایاکہ جہاد کی منسوخی کے ساتھ ان کے پردادا کا ایک عہدیہ بھی تھا کہ :’’ بخدامیں صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوڑ وں گا۔‘‘(کرامت الصادقین ص۳۷،خزائن ج۷ص۷۹) اوراگرانہوں نے اس