میں ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ نے نہایت عمدہ جواب لکھا ہے اور ممکنہ اشکالات کو خوبصورتی سے حل فرمایا ہے۔ لہٰذا اس عنوان پر اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت شہیدؒ ہی کا جواب نقل کر دیا جائے۔ جو درج ذیل ہے: ’’الغرض نکاح کے معاملے میں بھی آپﷺ کی بہت سی خصوصیات تھیں اور بیک وقت چار سے زائد بیویوں کا جمع کرنا بھی آپﷺ کی انہی خصوصیات میں شامل ہے۔ جس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے۔‘‘
حافظ سیوطیؒ (خصائص کبریٰ) میں لکھتے ہیں کہ: ’’شریعت میں غلام کو صرف دو شادیوں کی اجازت ہے اور اس کے مقابلے میں آزاد آدمی کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ جب آزاد کو بمقابلہ غلام کے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ تو پھر آنحضرتﷺ کو عام افراد امت سے زیادہ شادیوں کی کیوں اجازت نہ ہوتی؟‘‘
متعدد انبیائے کرام علیہم السلام ایسے ہوئے ہیں۔ جن کی چار سے زیادہ شادیاں تھیں۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی سو بیویاں تھیں اور صحیح (بخاری ج۱ ص۳۹۵) میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سویاننانوے بیویاں تھیں۔ بعض روایات میں کم وبیش تعداد بھی آئی ہے۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجرؒ نے ان روایات میں تطبیق کی ہے اور وہب بن منبہ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہاں تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں۔ (فتح الباری ص۳۶۰)
بائبل میں اس کے برعکس یہ ذکر کیا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (سلاطین:۱۱۔۳)
ظاہر ہے کہ یہ حضرات ان تمام بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہوں گے۔ اس لئے آنحضرتﷺ کا نوازواج مطہرات کے حقوق ادا کرنا ذرا بھی محل تعجب نہیں۔
آنحضرتﷺ کی خصوصیات کے بارے میں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کو چالیس جنتی مردوں کی طاقت عطاء کی گئی تھی اور ہر جنتی کو سو آدمیوں کی طاقت عطاء کی جائے گی… اس حساب سے آنحضرتﷺ میں چار ہزار مردوں کی طاقت تھی۔ (فتح الباری ص۳۷۸)
جب امت کے ہر مریل سے مریل آدمی کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو آنحضرتﷺ کے لئے جن میں چار ہزار پہلوانوں کی طاقت ودیعت کی گئی تھی، کم ازکم سولہ ہزار