اورفرقہ قادیانیت میں اپنے پچپن سالہ ذاتی تجربات کے نتائج پر مشتمل مختلف موضوعات کے تحت اس فرقہ کے بارے میں ایک سلسلہ مضامین کا لکھ رہا ہے۔ موجودہ مضمون میں مرزاقادیانی کی حکمت، علم ودانش کا مختلف جہتوں سے انتہائی مختصر جائزہ پیش کروں گا’’گر قبول افتدزہے عزوشرف‘‘میں اپنے مضامین میں بنیادی طور پر مرزاقادیانی ۔ ان کی اولاد اوراصحاب کی اپنی تحریروں کو ہی بنیاد بناتا ہوں(تاہم کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں قادیانی علماء کرام ،سکالرز کی کتابوں کا بھی حوالہ دیتا ہوں)تاکہ میرے قادیانی دوست یہ نہ کہیں کہ یہ مولویوں کے حوالے ہیں جو جھوٹ ہوتے ہیں ۔وہ بے چارے بھی اورکیا کریں؟ان کو سکھایا ہی یہی گیا ہے۔امام الزماں کے لئے جو معیار قرآن وحدیث سے ثابت ہے اس کے مطابق مرزا قادیانی کے دعوے دیکھنے چاہئیں۔لیکن مرزاقادیانی کا امام الزماں ہونے کا دعویٰ بھی ہے اور اس دعویٰ کی جو خصوصیات یاخامیاں،یا معیار قابلیت مرزا قادیانی خود پیش کریں ۔اگر اس کے مطابق بھی جائزہ لیں تو میرا خیال ہے کہ قارئین کو تفنن طبع کے طور پر کچھ مزید مواد میسر آجائے گا۔ اس لئے آج خاکسار مرزاقادیانی کے اپنے مقرر کردہ معیار پرمرزا قادیانی کے بعض افعال اورارشادات وغیرہ جانچنے کے لئے آپ کی خدمات میں پیش کر رہا ہے اوراس خواہش کے ساتھ کہ آپ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں:’’امام الزماں کو مخالفوں اورعام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ شریعت پر ہر ایک قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں۔طبابت کی رو سے بھی ،ہیئت کی رو سے بھی ، طبعی کی رو سے بھی ، جغرافیہ کے رو سے بھی،اورکتب مسلمہ اسلام کی رو سے بھی اورعقلی بناء پر بھی۔‘‘(ضرورت الامام ص۱۰،خزائن ج۱۳ص۴۸۰)اورمرزاقادیانی کے فرزند ،قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ اور خود ساختہ مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد لکھتے ہیں کہ :’’مسیحیت یا نبوت وغیرہ کا دعویٰ کرنے والا اگر درحقیقت سچا ہے تو یہ امرضروری ہے کہ اس کی فہم اوردرایت (بمعنی دانائی عقل، دانش، تصدیق، وہ علم جس میں روایت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں،بحوالہ فیروزاللغات۔ ناقل)اورلوگوں سے بڑھ کر ہو۔‘‘ (حقیقت النبوہ،ضمیمہ نمبر ۳)
اس مضمون میں خاکسار مرزاقادیانی کی لایعنی باتوں،کاموں اورتحریروں کو ’’ہفوات مرزا‘‘کے نام سے پیش کررہا ہے۔مرزاقادیانی نے جو منہ میں آیا کہا،جو دل کو بھایا کیا اور جو خیال ذہن میںآیا لکھ مارا۔بغیر یہ دیکھے کہ اس بات کااثر کیا ہوگا یا اس بات کا مطلب کیا ہوگا۔اس کام کا نتیجہ کیا نکلے گااور اس تحریر پر کون ہنسے گا اورکون روئے گا۔پہلے اسی موضوع پر کیا لکھ چکے ہیں اور