٭… اور مثال کے طور پر اب کوئی یہ کہے کہ مرزاقادیانی کا الہام ہے ۔قادیان کے جنوب میں ایک کھیت میں ایک عقاب شکار کرے گا۔ابھی پرندوں اورعقاب کی آمد کا وقت ہی نہیں آیا اورمرزاقادیانی کا کوئی مرید سری لنکا میں رہتا ہے وہ اپنے پالتو شکرے کو اڑائے اور کہہ دے کہ یہاں عقاب اور پرندے دیکھے ہیں۔کیونکہ سری لنکا قادیان کے جنوب میں ہے اس لئے مرزا قادیانی کاالہام پورا ہوگیا۔کوئی عقل کو ہاتھ ماروبھائیو! اب اگر کوئی کہتا ہے کہ ایک لال رنگ کی عمارت قادیان کے مغرب میں ہے تو تم اس کو قادیان کے مضافات میں دیکھو گے یا روس میں جا کر ؟کیونکہ روس بھی مغرب میں ہے۔
٭… اوراگر واقعی اتنی دور حدیث مبارکہ سے مراد تھی تواتنا لمبا چکرکاٹنے کی ضرورت کیا تھی۔ رسول کریمﷺ نے مکہ یا مدینہ سے سمت کیوں نہ بنائی؟وہاں سے توقادیان زیادہ مشرق کی جانب آتا ہے۔
٭… ایک اوربے ہودگی کہ:’’وہ مینارہ یہی مسجد اقصیٰ کامینارہ ہے۔‘‘جو ابھی صرف مرزاقادیانی کے خیالوں میں ہے۔
٭… مینار جس کا حدیثوں میں ذکر ہے ۔کیا وہ مسجد اقصیٰ جو بیت المقدس میں ہے،کا مینارہ تھا یا دمشق کی کسی مسجد کا ؟اورمسجد اقصیٰ کے ساتھ کسی کمزورترین احادیث کا بھی ذکر آیاہے؟
’’اوریہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت حدیث نبویہ میں تسلیم کی گئی اور اس منارہ کا خرچ دس ہزار سے کم نہیں۔اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مددکریں گے میں یقینا سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت انجام دیں گے‘‘(اس میں کیا شک ہے کہ اپنا اوراپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر پہلے تمہارے اورتمہاری اولاد کے شاہی اللے تللے پورے کرنا واقعی بھاری خدمت ہے۔ناقل) (اشتہار نمبر ۲۲۱ مورخہ ۲۸مئی۱۹۰۰ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳، ص۲۸۲ تا ۲۹۷)
جب لوگوں کی جیب سے پیسے نکالنے کا خیال آیا تو جو بات بے سند تھی ۔اس کو حدیث نبویہ کی تسلیم شدہ ضرورت قرار دے دیا۔
٭… اس کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی اپنے دوسرے( اشتہار نمبر ۲۲۳،ص۳۱۴تا۳۲۴) میں بڑے جذباتی انداز اورمریدوں کے اخلاق اورجذبہ قربانی کوبلیک میل کرتے ہوئے ۔ان کے مال کے طلب گار ہوتے ہیں اورتاکید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’سو واضح ہوکہ ہمارے سید ومولا خیر الاصفیاء خاتم الانبیاء سیدنامحمدﷺ کی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود جو خدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اورعیسائیت کے غلبہ کے وقت میںنازل ہوگا۔اس کا نزول ایک سفید منارہ کے قریب ہوگا