اب سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے پاس آکر انسان کیاحاصل کرتاہے اورسلوک کی کون سی منازل طے کرتاہے۔ ان ساری باتوں کامختصر اورجامع جواب مرزا قادیانی کی اپنی تحریریں ہی دے رہی ہیں۔
٭… مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’میں اس جگہ اس بات کااظہار بھی مناسب سمجھتا ہوںکہ جس قدرلوگ میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہیں۔ وہ سب کے سب ابھی اس بات کے لائق نہیں کہ ان کے متعلق عمدہ رائے کااظہار کر سکوں۔ بلکہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں جن کو میراخداوند جو میرا متولی ہے مجھ سے کاٹ کر جلنے والی لکڑیوں میں پھینک دے گا۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ اول ان میں دلسوزی اوراخلاص بھی تھا۔مگر اب ان پر سخت قبض وارد ہے اوراخلاص کی سرگرمی اورمریدانہ محبت کی نورانیت باقی نہیں رہی۔ بلکہ صرف بلغم کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں اوربوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دیئے جائیں۔ وہ تھک گئے اوردرماندہ ہوئے۔ اور نابکار دنیا نے انہیں اپنے دام تزویر کے نیچے دبالیا۔‘‘ (فتح اسلام ص۶۷، خزائن ج۳ ص۴۰)
٭… دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کامادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزوربچے کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھوکرکھاتے ہیں اوربعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریرلوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اوربدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتامردار کی طرف۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۸۷، خزائن ج۲۱ ص۱۱۴)
یہ ۱۹۰۷ء میںطبع ہوئی۔اس پر ایک انسا ن یہی تبصرہ کرسکتا ہے کہ مرزا قادیانی جن لوگوں سے عزت پاتے تھے۔ جن کے چندہ پررئیسوں کی طرح عیش کرتے تھے اورجائدادیں بنائیں۔ انہی لوگوں کی بڑی تعداد کو مردار کی طرف دوڑنے والا کتا قرار دے رہے ہیں۔ توسوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاایسے احسان فراموشوں کو ہی ’’جس تھالی میں کھائے اسی میں تھوکنے والا‘‘ کہے کاخطاب برحق ہوگا یا نہیں؟ یاپھر جو لوگ اس الزام کو تسلیم کررہے ہیں سادگی کی وجہ سے۔ ان کو کیایہ مشورہ دینا جائز نہیں ہوگا کہ تم اچھے انسان ہو اوریہ خطاب واپس کرکے ان کی طرف لوٹ جائو جو تمہیںانشاء اللہ انسان ہی سمجھیں گے۔
اور ہزارباتوں کی ایک بات۔مرزاقادیانی اپنی کتاب (ازالہ اوہام حصہ اول، خزائن ص ۲۲۲،۲۲۳ ج ۳ص ۲۱۱) میں لکھتے ہیں کہ: ’’مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے