رسول پاکﷺ کی روح یا جسم یا دونوں مرزاقادیانی ہیں تو یہ ممکن نہیں۔ قرآن کریم کی کئی آیات میں بروز کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ ابراہیم، آیت ۴۸، سورۃ ابراہیم، آیت ۳۱، سورۃ غافر، آیت ۱۶، سورالبقرۃ، آیت ۲۵۰، سورۃ النسائ، آیت ۸۱، سورۃ آل عمران، آیت ۱۵۴۔ (بشکریہ، خوان ارمغان، مصنفہ فضل احمد گورد اسپوری، مطبوعہ ۱۹۱۵ئ) ان سب میں اﷲ تعالیٰ نے قبروں سے مردوں کا نکلنا یا گھروں کے اندر سے یا کسی اوٹ سے باہر اور ظاہر ہوکر نکلنے کے کئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بروز اس کو کہتے ہیں کہ جو جسم چھپ گیا ہو یا گھر کے اندر یا کسی اوٹ میں ہو اور وہ ظاہر ہوکر سامنے آئے۔ اب اس طرح تو بروز محمدی کے معنی صرف یہی ہوسکتے ہیں کہ محمدﷺ اپنے روضہ پاک سے اٹھ بیٹھیں اور ایسا ماسوائے روز قیامت کے ممکن نہیں۔ اگر مرزا کو ہی نعوذباﷲ محمدﷺ کا وجود مان لیں تو کیا مرزاقادیانی بشکل رسول کریمؐ قبر میں چھپے ہوئے تھے جواب ظاہر ہوگئے؟ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
ہوسکتا ہے کہ کوئی قادیانی دوست کہے کہ یہ فقیر درمصطفیﷺ اس کا غلط مطلب نکال رہا ہے، آیا اس کا وہی مطلب نکلتا ہے یا نہیں، میں اپنی بات کی تائید میں مرزاقادیانی کے بیٹے کی تحریر پیش کرتا ہوں اور اس بیٹے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے اس بیٹے کو قمرالانبیاء کا الہامی خطاب دیا ہوا ہے اور یہ (جھوٹے) نبیوں کے چاند لکھتے ہیں: ‘‘ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماری (یہ الہامات مرزاقادیانی ہیں۔ ناقل) اور یہ اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود (مرزاقادیانی۔ ناقل) خود محمد رسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر محمد رسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔‘‘ (کلمتہ الفصل، ص۱۵۸، مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے، پسر مرزا قادیانی) لوکر لوگل! جناب یہاں ہندوئوں کے عقیدہ کو اپناتے ہوئے تو رسول پاکﷺ کے بابرکت وجود کے ساتھ ساتھ ان کے کلمہ پر بھی ہاتھ صاف ہوگیا۔
مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’بعض کا ملین اس طرح پر دوبارہ دنیا میں آجاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اور پر تجلی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی ہوجاتا ہے۔ ہندوئوں میں ایسا اصول ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، ص۱۲۵، خزائن ج۲۱ ص۲۹۱)
ہندوئوں کا کیا عقیدہ ہے تو یہ بھی ان کی کتاب سے پڑھ لیجئے۔ ’’جس طرح انسان