دو وحیوں کا ذکر کرتا ہے۔ ایک جو رسول کریمﷺ سے قبل نازل ہوئی اور دوسری جو رسول کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ (تیسری کسی وحی کا ذکر نہیں جو مرزا قادیانی پر نازل ہوئی)
مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت کوئی دوسرے انبیاء کی طرح نہیں بلکہ سب انبیاء کرام علیہم السلام، حتیٰ کہ رسول کریمﷺ سے بھی بڑھ کر ہے۔
مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ’’اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبیین پر ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہوکہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے گوظلی طور پر۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبیین ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمدﷺ کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳ خزائن ج۱۸ص۲۰۹)
ان کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم اے نے اس کی تشریح میں لکھا ہے: ’’مسیح موعود کوتب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کرلیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص ۱۱۳،ازمرزا بشیر احمد ایم اے)
ان حوالوں سے کم ازکم یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرزا قادیانی اور ان کے متبعین ان کو نعوذباﷲ نبی کریمﷺ کے برابر سمجھتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے بیٹے کی شہادت میری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر جو زہر اس ایک فقرے کے اندر مخفی ہے، مقام رسول اﷲ پر کتنا سخت اور گہرا، بالواسطہ حملہ ہے؟ رسول کریمﷺ کو نبوت ملی اور انہوں نے تب اس میں کمال حاصل کیا لیکن مرزا قادیانی کو نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام کمالات دے دیئے گئے اس کے بعد ان کو صرف ظلی نبی یعنی ایک سایہ کو رسول کریمﷺ کے برابر کھڑا ہونے کے قابل کرکے رسول کریمﷺ کے پہلو بہ پہلو کھڑا کردیا اور ساتھ ہی عندیہ دے دیا کہ ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ استغفراﷲ!
اس وجہ سے ضروری
ہے کہ جب ہم مرزا قادیانی کی عبادات کا جائز لیں تو جماعت کے اس مؤقف کو پیش نظر