۱۹۸۹ء میں جب میں گورنمنٹ کالج ٹاہلیانوالہ جہلم میں بطور لیکچرار ٹرانسفر ہو کر آیا اور محمود آباد جہلم میں اپنے آبائی گائوں میں رہنا شروع کیا تو اس وقت مقامی جماعت میں جس میں نوجوانوں اور بڑوں کی تعداد (۱۸ سال سے زائد عمر کے) ۱۰۰ افراد سے کچھ زیادہ تھی ان میں سے صرف ۱۴ افراد باقاعدگی سے چندہ دے رہے تھے اور جب نومبر، دسمبر ۱۹۸۹ء میں جماعت کا الیکشن ہوا تو میرے سمیت کل ۱۵ افراد ووٹر بیٹھ سکے کیونکہ باقی سب نادہندگان میں شامل تھے اور ان کو الیکشن کے وقت اٹھا دیا گیا۔ اب صرف ۱۵ فیصد افراد باقاعدگی سے چندہ دے رہے تھے اسی ۱۵ فیصد تعداد کے پیچھے بار بار چندے کی ادائیگی کی تلقین۔ مرکز سے چندے کی وصولی کے لیے سال میں کئی بار آنے والے انسپکٹرز کی کارکردگی، کسی نہ کسی نوجوان کی طرف سے سیکرٹری مال کی معاونت کرتے ہوئے، تمام لوگوں کے پاس جا کر چندے کی وصولی کی کوشش وغیرہ شامل تھیں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان افراد کو بھی یہ مکمل آزادی ہوتی کہ وہ مالی قربانی کرنا چاہیں تو ان کی مرضی تو یقینا ۲/۳ فیصد رزلٹ سامنے آتا یا شاید یہ بھی نہ ہوتا پھر جب راقم نے اپنے دوستوں کو ملا کر جماعت کو ایکٹو کرنے کی کوششیں کی تو اکتوبر ۱۹۹۰ء میں ضمنی الیکشن میں ۶۲ فیصد چندہ دہندگان نے حصہ لیا گویا یہ تعداد ۱۵ سے ۶۲ تک جا پہنچی مزید کوششوں سے یہ تعداد ۷۵ فیصد تک جاپہنچی پہلے جماعت کو (ربوہ کو، مرکز کو) محمود آباد جہلم سے اوسطاً ۲ ہزار روپے ماہوار مل رہے تھے میری اور میرے دوستوں کی کوششوں سے پندرہ سے بیس ہزار ماہوار ملنا شروع ہوگئے اس زبردستی لائے جانے والی مثبت تبدیلی کے کیا منفی اثرات یا ردعمل پیدا ہوا اس کا تذکرہ اپنے آئندہ مضامین میں کیا جائے گا۔ مذکورہ بالا تحریر سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر مالی قربانی کی بات ہو تو رزلٹ دو فیصد سے کم ہوگا اور اگر خود کوششیں کرکے افراد جماعت کے گھروں تک پہنچ کر ان کو بار بار یاد دہانی سے شرمندہ کرکے پیسے نکلوائے جائیں تو پھر ۶۰ سے ۸۰ فیصد نتیجہ مل سکتا ہے مگر یہ مالی قربانی نہیں ہوگی بلکہ یہ ٹیکس ہوگا جس کی ادائیگی کے لیے ممبران کو مجبور کیا جاتا ہے اور اگر ادائیگی نہ ہو تو ناراضگی کے ساتھ ساتھ ان پر پابندیاں بھی لگیں گی اور ان کے ذمہ واجب الاادا چندہ (ٹیکس) ان کے کھاتے میں نام ہو جائے گا جو اگلے سال یا پھر اگلے سال ادا کرنا پڑے گا بلکہ مرنے کے بعد اس کے لواحقین وہ چندہ ادا کریں گے۔
اصل میں یہ وہ ٹیکس ہے جو مرزا قادیانی کی فیملی کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے مالا مال کرچکا ہے جائیدادیں، بینک بیلنس، کوٹھیاں، کاریں اور بیرون ملک اثاثے اسی ’’مالی قربانی‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بڑی کسمپرسی اور کم مائیگی میں زندگی