ہیں۔ گو اب حالات کافی بدل چکے ہیں مگر تاحال قادیانیوں کی ’’ظالمانہ شرافت‘‘ اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ اس شرافت میں جماعت پوری طرح شامل رہتی ہے۔ محمود آباد کو ۱۸۳۰ء کے قریب ملک سلطان محمود اور اس کے بیٹوں نے آباد کیا۔ ۱۸۷۰ء میں اس کی زمینوں میں سے دو سڑکیں نکالی گئیں جن میں سے ایک جہلم شہر کو کالا گوجراں سے ملاتی ہے اور جی ٹی روڈ سے ایک کلو میٹر دور اس کے متوازی محمود آباد میں سے گزرتی ہے۔ اس سڑک سے آبادی تک راستہ نہ تھا۔ سو سال سے لوگ کچے ’’بنوں‘‘ پر سے گزر کر گزارہ کر رہے تھے۔ ۳۰/۳۵ سال قبل یہ سڑک پختہ ہوگئی۔ شہری سہولتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات بھی بڑھتی گئیں۔ سڑک سے آبادی تک کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ایسا راستہ نہ تھا جو ٹریفک کے لیے استعمال ہوسکتا۔ مختلف وقتوں میں راستے کے لیے کوششیں ہوتی رہیں کہ راستہ بن جائے مگر ندارد اس سڑک تک پہنچنے کے لیے چھوٹے اور قریب ترین راستے کے لیے صرف تین زمینداروں کی زمینیں راستے میں آتی تھیں۔ ان میں سے ایک ’’مخلص قادیانی‘‘ خاندان تھا۔ اس بدنام زمانہ پھڈے باز خاندان کو ہر پھڈے بازی پر جماعت کی طرف سے پوری اور اجتماعی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا گیا مگر ان کی کوششیں ’’مخلص قادیانی‘‘ خاندان نے ناکام بنا دی۔ قادیانی خاندان کا سربراہ اس لحاظ سے خاصا مستعد تھا کہ اگر ایک مسلمان اس راستے کو بنوانے میں کامیاب ہوگیا تو کل ان کا اثر و رسوخ اور نمبرز بڑھ جائیں گے۔ اس طرح تو مسلمان پاور فل ہو جائیں گے اور ہمیں آنکھیں دکھانے لگیں گے۔ لہٰذا اس نے سختی سے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جب ایک قادیانی خاندان نے ہی اس پھڈے باز خاندان کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر دبایا تو اس نے دہائی دیتے ہوئے یہ راستہ چھوڑ دیا تاکہ لوگوں سے دوسرے خاندان کے خلاف گواہی اور مدد لے سکے۔
اس ’’مخلص اور پھڈے باز قادیانی خاندان‘‘ نے ایک مسلمان کی اپنی زمینوں کے ساتھ ملنے والی زمینوں کے خاصے حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ جب دوسرے قادیانی خاندان نے ان کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر دیا تو یہ زمین بھی اس مسلمان کو مل گئی۔ اس وقت بھی بہت سے غریب