پر کروا لیے جائیں مگر یہ سلسلہ مایوس کن نتائج سامنے لایا۔ خوب کوشش کے باوجود سو سو افراد کے قافلے بغیر کسی ’’پھل‘‘ کے واپس چلے جاتے۔ (جماعت میں ’’نئے قادیانی‘‘ کے لیے ’’پھل‘‘ کا لفظ بطور کوڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ کاغذات میں بھی اندراج ’’پھل‘‘ کے لفظ سے ہوگا) جماعت کا خاصا خرچہ ہو جاتا۔ ہر جماعت تحصیل اور ضلع کی سطح پر ’’دعوت الی اللہ کے قافلے‘‘ تیار کرتی اور سپیشل بسوں کے ذریعہ یہ دورے کروائے جاتے۔
۱۹۸۴ء میں چلنے والی تحریک ختم نبوت کے نتیجہ میں مرزا طاہر احمد صاحب بیرون ملک چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے ایک خطاب میں جماعت کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ہم سوا کروڑ ہو چکے ہیں۔ اس میں احتیاط یہ کی گئی کہ اس بیان کو اپنی طرف سے نہ کہا کیونکہ پھر یہ باضابطہ اعلان ہو جاتا۔ کہا کہ: ’’ہمارے بعض حساب رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم سوا کروڑ ہو چکے ہیں۔ جس میں سے ۴۰ فیصد پاکستان میں ہیں اور باقی دوسرے ملکوں میں ہیں۔ مزید کہا کہ اب ہم کوشش کریں گے جو کمی رہ گئی ہے یعنی سوا کروڑ ہونے میں وہ پوری کرلی جائے۔‘‘ واضح رہے کہ اس بیان کے مطابق پاکستان میں تعداد ۵۰ لاکھ بنتی ہے جبکہ میں ۳۱؍مارچ اور یکم؍اپریل۱۹۹۹ء والے مضمون ’’قادیانی جماعت کی تعداد …… حقیقت کیا ہے!‘‘ میں تفصیلی ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کرکے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ پاکستان میں قادیانیوں کی تعداد دو سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر ۱۹۸۴ء تک ہر سال جلسہ سالانہ پر پورے سال کی کارگزاری بتائی جاتی رہی ہے۔ اس میں کسی ایک جماعت یا حلقہ یا علاقے کی بیعتوں کا ذکر کر دیا جاتا۔ اس سے اندازہ کروایا جاتا کہ جب ایک تحصیل میں یہ پروگریس ہے تو باقی خود اندازہ کرلیں۔ پورے پاکستان کی کل بیعتوں یا کل تعداد کا کبھی ذکر نہ کیا جاتا حالانکہ جماعت کے پاس مکمل کوائف ہوتے تھے۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ بیعتوں کی تعداد بہت کم یعنی مایوس کن ہوتی۔ لہٰذا جماعت یہ تعداد بتانے سے احتراز کرتی اسی طرح جماعت ایک احساس کمتری میں مبتلا ہوگئی۔
۱۹۸۴ء کے بعد ۱۹۹۳ء تک لندن کے جلسہ پر یہ اعلان ہوتا رہا کہ پچھلے سال ہونے والی بیعتوں کی تعداد سے دگنی بیعتیں اس سال ہوئی ہیں۔ سات سال بعد اس تعداد کو دو لاکھ بتایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۱۹۸۴ئ، ۱۹۸۵ء میں یہ تعداد ایک ہزار سے کم ہوگی۔عالمگیر بیعت
۱۹۹۳ء سے ’’عالمگیر بیعت‘‘ کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ ہر سال پچھلے سال