جائز ہی نہیں۔ اس وقت مرزا قادیانی نے کن حالات میں اور کس ماحول میں بات کی۔ کتنے سفر پر روزہ کی چھوٹ کا ذکر کیا اس کو چھوڑیں۔ دیکھتے ہیں کہ جماعت اس وقت کس لائن پر ہے کیونکہ ابھی مرزا قادیانی کو فوت ہوئے سو سال کا عرصہ نہیں گزرا اور ان کے جانشین بطور ’’خلیفہ‘‘ ابھی موجود ہیں۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر ایک قادیانی نے دن کے پچھلے پہر کوئی ایک گھنٹہ کا ہی سفر کرنا ہو جو ظاہر ہے آج کل پیدل یا تانگوں پر نہیں کیا جاتا بلکہ آرام دہ بسیں اور ویگنیں دستیاب ہیں تو وہ قادیانی صبح روزہ رکھے گا ہی نہیں۔ اگر کوئی کہہ دے کہ روزہ رکھ لو تو جواب ہوگا آج میں نے سفر کرنا ہے وہ سفر بے شک جہلم سے گوجر خان (ایک گھنٹہ) گوجر خان سے راولپنڈی (ایک گھنٹہ) یا راولپنڈی سے چکوال (ڈیڑھ گھنٹہ) وغیر وغیرہ۔ اگر کسی قادیانی کو زکام کا اندیشہ ہو کہ دن کو زکام لگ سکتا ہے آثار نظر آ رہے ہیں تو وہ روزہ نہیں رکھے گا۔ اگر جسم میں تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے تو اب اندیشہ ہے کہ دن کو بخار ہو جائے لہٰذا روزہ چھوڑنے کا معقول بہانہ تیار ہے اس بارے میں مرزا طاہر احمد نے متعدد بار اور جماعت کے مربیوں نے بار بار جماعتی فلسفہ بتایا ہے کہ جب خدا نے بیماری اور سفر میں روزہ کی چھوٹ دے رکھی ہے تو اب روزہ رکھ کر خدا کو زبردستی راضی کرنے والی بات ہوئی جو مناسب نہیں۔ یا پھر روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی کو چیلنج کیا جاتا ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں دیکھو ہم نے سفر میں روزہ رکھ لیا ہے اور کچھ نہیں ہوا یا بیماری میں روزہ رکھ لیا ہے اور کچھ نہیں ہوا۔ اس فلسفے پر تو زور ہے مگر اس بات پر زور نہیں کہ آج جو روزہ چھوڑ رہے ہو کل سفر کی یا بیماری کی حالت ختم ہونے کی صورت میں ان روزوں کی تعداد پوری بھی کرنی ہوگی۔ لہٰذا قادیانی صرف روزہ چھوڑتے ہیں بعد میں رکھتے نہیں۔ اگر جماعت بعد میں روزہ رکھنے پر پابند کرے تو کوئی قادیانی روزہ چھوڑے ہی نہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کسی بستی میں بسنے والے بالغ قادیانی مردوزن میں سے کم از کم ۵۰ فیصد بے روزہ ضرور ہوں گے باقی ۵۰ فیصد روزہ دار صرف (احتیاطً لکھ رہا ہوں) اور یوں قادیانی روزہ کے ساتھ کھلم کھلا مذاق کرتے ہیں۔ اس کے مقابل مسلمان روزہ کی سختی سے پابندی کرتے ہیں ہر چھوٹا بڑا روزے کی پابندی کرے گا اور بالغ افراد کی کم از کم ۹۰ فیصد تعداد روزہ رکھے گی۔ ۱۰ فیصد بے روزے صرف احتیاطً لکھ رہا ہوں ایک مسلمان ۸ گھنٹے کے سفر پر بھی ہو تو وہ روزہ رکھے گا وہ جانتا ہے کہ آج کا دس گھنٹے کا سفر ۱۴۰۰ سال قبل کے ایک گھنٹہ کے سفر کی شدت سے بھی کم شدت رکھتا ہے۔