M
الحمدﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
۸؍ستمبر ۲۰۰۶ء کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ لاہور کے صفحہ اوّل پر نامہ نگار خصوصی افتخار چوہدری کے حوالہ سے ’’مذہبی منافرت اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ۹۰ کتابوں کی خرید و فروخت پر پابندی‘‘ کے عنوان سے ایک چار کالمی خبر شائع ہوئی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ: ’’وفاقی حکومت نے فرقہ وارانہ تعصب و دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ملک بھر میں مختلف مکاتب فکر کی ۹۰ کتب کی خرید و فروخت پر فوری پابندی عائد کردی ہے‘ اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ان کتب کی فہرست جاری کردی ہے‘ ان کے مواد کو شر انگیز‘ اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ منافرت کا موجب قرار دیا گیا ہے‘ اور فروخت کرنے والوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا حکم دے دیا ہے۔ فہرست میں نوے کتب کے نام اور مصنّفین کے نام بھی درج ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر ملک سے فرقہ وارانہ دہشت گردی کو دور کرنے کے لئے ملک بھر کی انتظامیہ کو مکمل طور پر چوکنا کردیا گیا ہے‘ کیونکہ ماضی میں انہی فرقہ وارانہ اشتعال دینے والی کتابوں کی وجہ سے شیعہ‘ سنی اور دیگر مکاتب فکر کے خوفناک فسادات ہوئے‘ جن میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد ملتے رہے… سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت نے ملک بھر کی پولیس کو دینی کتب کے بک اسٹالوں‘ مدارس‘ مساجد او ر امام بارگاہوں کے سامنے دینی کتب فروخت کرنے والوں کی کڑی نگرانی کرکے ان کی گرفتاریوں کی ہدایت کی ہے‘ حکومت نے پولیس سربراہان سے کہا ہے کہ ایسی کتب فروخت کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جائیں… ان کی تفصیل یہ ہے… اس کے بعد کتب اور ان کے مصنّفین اور ناشران کے پتے درج ہیں۔ ناقل‘‘
قطع نظر اس کے کہ اس خبر میں کس قدر صداقت ہے؟ کیا واقعی جناب صدر اور وزارت داخلہ نے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری بھی کیا ہے یا نہیں؟ تاہم اگر یہ خبر سچی ہے اور سرکار کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح ہے‘ تو ہمارے خیال میں پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے والے بزرچ مہروں نے ان کتابوں کو پڑھا تو کجا‘ شاید دیکھا بھی نہ ہوگا‘ اس لئے کہ اگر انہوں نے ان رسائل و کتب کو پڑھا ہوتا تو انہیں اندازہ ہوتا کہ ان میں سے بعض رسائل و کتب فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی نہیں‘ بلکہ