مسجد کے اندر اسکو پیتے ہیں ، پس انکے حق میں کراہت زیادہ سخت اور بہت زیادہ ہے ‘‘۔ ۱؎
حقہ نوشی کے عدم جواز پربحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ اشیاء کی حرمت اور اباحت کی پہچان کا ایک عمدہ قاعدہ ہے جس کا مرجع اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ حق یوں ہے کہ نبوت سے پہلے اشیاء میں کوئی حکم نہیں ہے اور نبوت کے بعد علماء تین قول پر مختلف ہیں ۔ قول اول یہ ہے کہ ان کے علاوہ سب چیزیں حرام ہیں جن کا شرعی دلیل نے جائز ہونا بتایا ہے ۔اور دوسرا یہ کہ ان کے سوا سب چیزیں مباح ہیں جنکا دلیل شرعی نے حرام ہونا بتایا ہے ۔ اور تیسرا قول اور یہی صحیح ہے ۔ یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ نقصان کی چیزیں اس معنی کو سب حرام ہیں کہ اصل ان میں حرمت ہے نفع اورنفع کی چیزیں سب مباح ہیں اس اعتبار سے کہ اصل ان میں اباحت ہے ۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا قول ہے : {ھوالذی خلق لکم ما فی الأرض جمیعاً } وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب ۔۔۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو احسان جتانے کی جگہ ذکر فرمایا ہے ۔ اور احسان صرف نافع اورمباح سے ہوسکتاہے ۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے فائدے کے لیے تمام چیزیں جو زمین میں ہیں پیدا کیں تاکہ تم ان سے نفع اٹھاؤ ۔
اور اس تیسرے صحیح قول کی بناپر حقہ کا حکم بھی نکلتاہے ۔ پس اس لیے کہ حقہ اگر نافع ہوتا تو اصل میں اباحت ہوتی ۔ لیکن حاذق طبیبوں کے بیان سے
------------------------------